Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Irfan Javed
  4. Hue Tum Dost Jis Ke

Hue Tum Dost Jis Ke

ہوئے تم دوست جس کے

یادش بہ خیر، واقعہ کچھ یوں ہے کہ ہم امریکا کے شہر سئیٹل میں تھے جب ہمیں اسامہ بن لادن کی موت کی خبر ملی۔ ہوا کچھ یوں کہ ہمارا گروپ امریکا کے ٹوور پر تھا اور چند شہروں سے ہوتا ہوا سئیٹل میں ٹھیرا ہوا تھا جب ایک شام فٹ پاتھ پر چہل قدمی کرتے ہوئے میری نظر ایک کیفے کی شیشے کی دیوار سے اندر چلتے ٹی وی پر پڑی جس پر پاکستان کا نام اور جھنڈا فلیش ہورہا تھا۔ پہلے تو مجھے خوش گوار حیرت ہوئی کہ یقیناََ ہم نے کوئی اہم کارنامہ سرانجام دیا ہے لیکن ساتھ ہی خیال آیا کہ ایسا ہونا مشکل ہے، یقیناََ پھر سے کوئی گڑبڑ ہوگئی ہے۔

میں کیفے میں داخل ہوگیا اور یہ دیکھ کر میرے ہوش اُڑگئے کہ "اُسامہ بن لادن کا سراغ پاکستان کے نیم پہاڑی مقام ایبٹ آباد سے ملا جو کاکول کی بغل میں ہے" اور یہ کہ اسامہ بن لادن کا کام تمام کردیا گیا ہے۔ میں خاموشی سے وہاں سے کھسک گیا اور اپنے کمرے کے ہوٹل میں آکرٹی وی آن کرلیا۔ یقیناََ وہ امریکا کو سب سے مطلوب شخص تھا اور پاکستان سے اُس کا کھرا نِکلا تھا۔ اس معاملے کو ان کے جوتوں میں کھڑے ہوکر دیکھنے کی ضرورت تھی۔

بہرحال، اگلی صبح ہمارے میزبان امریکیوں کے چہرے بجھے ہوئے تھے اور وہ ہم سے نظریں چرا رہے تھے۔ ہم وہاں یوں موجود تھے جیسے نادانستگی میں ہم سے کوئی بڑی غلطی ہوگئی ہو۔

انتہا تو تب ہوئی جب میں نے واپسی کے لیے ٹیکسی لی۔ اُس کا ڈرائیور جنوبی امریکا کے کسی ملک سے تعلق رکھتا تھا (جس کا نام اب مجھے یاد نہیں)۔ باتوں باتوں میں اُس نے مجھ سے پوچھا کہ میرا تعلق کس ملک سے ہے۔ میں نے بات ٹالنے کی کوشش کی۔ وہ بھی خدا کا کوئی خاص بندہ تھا۔ مجھ سے پاکستان کا نام معلوم کرکے ہی دَم لیا۔ ملک کا نام سن کر وہ خاموش ہوگیا۔ بقیہ سفر خاموشی میں گزرا۔ جب اُس نے مجھے ہوٹل پر اُتارا تو وہ ٹیکسی سے باہر نکل آیا اور گلے سے لگا کر گلوگیر لہجے میں اسامہ بن لادن کے مرنے کی نہ صرف تعزیت کی بلکہ حوصلہ بھی دیا کہ زرخیز مٹی سے مزید توانا پودا بھی برآمد ہوسکتا ہے۔

جب میں نے اُس کے خیالات کو جھٹلایا تو وہ مجھے ان نظروں سے دیکھتا رہا جن نظروں سے ایک ایسے نادان اور شرارتی بچے کو دیکھا جاتا ہے جو جھوٹ بول رہا ہو۔

بہرحال وہ میری وضاحتیں نظر انداز کرتا ہوا ٹیکسی میں جا بیٹھا اور یہ جا وہ جا ہوا۔

اتنے برس بعد جب میں کسی سے حقیقت اور سچائی بیان کررہا ہوتا ہوں اور مخاطب میری بات پر یقین نہیں کرتا تو مجھے وہ ٹیکسی ڈرائیور اور سیئٹل کی وہ شب یاد آجاتے ہیں جب میں ہواخوری اور چہل قدمی کے لیے جھیل کنارے نکلا تھا۔

Check Also

Dil e Nadan Tujhe Hua Kya Hai

By Shair Khan