Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Irfan Javed
  4. Hamid Masood Ki Phuphi

Hamid Masood Ki Phuphi

حامد مسعود کی پھوپھی

زاہد مسعود ایک زندہ دل کھلنڈرا اور ہم درد انسان تھا۔ وہ پاکستان کی فارن سروس میں اہم عہدے پر تعینات تھا۔ سِول سروس میں آنے سے پہلے وہ ایرفورس میں افسر رہا تھا۔ البتہ وہاں سے استعفیٰ دے کر اُس نے مقابلے کا امتحان دیا اور کام یابی کے بعد اسے امورِخارجہ کا محکمہ تفویض ہوا۔ ایرفورس میں ملازمت کے دوران زاہد مسعود کی بیوی کا انتقال ہوگیا تھا۔ زاہد کو اپنی اہلیہ سے عشق تھا۔ اُسے ایرفورس کی ہر شے میں اپنی مرحومہ بیوی کے ساتھ گزرے ایام کا عکس نظر آتا تھا۔ سو اُس نے اس ملازمت کو ہی خیرباد کہہ کر زندگی کی راہ بدل دی۔

تربیتی پروگرام کے دوران نئے دوستوں کے درمیان بیٹھ کر اکثر وہ اپنی مرحومہ بیوی کا ذکر کرتے ہوئے آب دیدہ ہوجایا کرتا تھا۔ اُس نے بے اعتدالیاں بھی اختیار کرلیں۔ البتہ اُس کی زندگی ایک چراغ سے روشنی پاتی تھی، وہ چراغ اُس کا اکلوتا بیٹا تھا۔

ایک روز اندوہ ناک خبر ملی کہ زاہد کو جگر کا سرطان ہوگیا ہے۔ وہ آناً فاناً، دیکھتے ہی دیکھتے چلا گیا۔ اُس کے دوست مٹھیوں میں خاک لے کر آئے اور عمر بھر کی محبتوں کا صلہ دینے لگے۔ مجھے اُس کا جنازہ خوب یاد ہے۔ زاہد مسعود کا بوڑھا باپ مسجد میں بوکھلایا پھرتا تھا اور تیرہ سالہ بیٹا حامد حیران نظروں سے کبھی سوگ واروں کو دیکھتا تھا اور کبھی اپنے باپ کی میت کو۔

ابتداً زاہد مرحوم کے دوستوں نے حسبِ روایت کچھ عرصہ اُس کے بیٹے سے رابطہ رکھا۔ پھر یہ رابطے وقت کی دُھند میں کھوگئے۔ ایک دو دوستوں نے بہرحال بچے سے رابطہ ضرور رکھا۔ دس پندرہ برس بیت گئے۔ اس دوران زاہد کا والد بھی انتقال کرگیا۔

چند روز پہلے حامد مسعود کی شادی کا کارڈ دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی۔ میں وقت سے پہلے شادی ہال پہنچ گیا۔ شادی ہال میں حامدکے برابر ادھیڑ عمر کی ایک سنجیدہ خاتون کھڑی تھیں۔ حامد نے اُن خاتون کا مجھ سے تعارف یہ کہہ کر کروایا۔ "یہ میری پھوپھو جان ہیں لیکن میں انھیں اپنی امی سمجھتا اور کہتا ہوں۔ ابا کے چلے جانے کے کچھ ہی عرصے بعد دادا بھی فوت ہوگئے تھے۔ میں پوری دنیا میں اکیلا ہوگیا تھا۔ تب پھوپھو امی ہی تھیں جو میری ماں، باپ اور دادا بنیں۔ انھوں نے مجھے سگی ماں کی کمی کا احساس نہیں ہونے دیا۔ ایک ایک پیسہ جوڑکر دن رات میراخیال رکھا۔ یہ جو میں آپ کے سامنے زندہ کھڑا ہوں پھوپھو امی ہی کی وجہ سے ہوں۔ "حامد کی آنکھوں میں تشکرکے آنسو تھے اوروہ پاکیزہ ہستی، اُس کی پھوپھو امی، سرجھکائے اُس کے برابر کھڑی تھیں۔

بات پٹڑی بدلتی ہے۔

کہانی عورت کے کہنے اور سننے کی شے ہے۔ زمانہ قدیم سے مائیں، دادیاں، نانیاں بچوں کو لوریاں، کہانیاں سناتی آئی ہیں۔ دنیا میں عورتیں مردوں کی بہ نسبت کہیں زیادہ کتابیں رسالے پڑھتی ہیں۔ البتہ ان کا رجحان زیادہ رومانی، معاشرتی، خاندانی کہانیوں ناولوں کی جانب ہوتا ہے اور وہی زیادہ بکتے بھی ہیں۔ میں آج بھی ہرماہ کے آغاز میں اپنے علاقے کے سب سے بڑے اخبار گھر جاتا ہوں اور دل مسوس کر رہ جاتا ہوں۔

آج جب اُردو زبان کے ڈائجسٹ زوال پذیر ہیں۔ وہ ڈائجسٹ رسالے جن کی اشاعت ساٹھ ستر ہزار کی تعداد تک تھی، اب سیکڑوں کی تعداد تک گھٹتے جارہے ہیں۔ ایسے میں واحد حوصلہ افزا امر خواتین ڈائجسٹوں کی نسبتاً بہتر سرکولیشن ہے۔ آج بھی خواتین کے ڈائجسٹ اچھی خاصی ہزاروں کی تعداد میں بکتے اور پڑھے جاتے ہیں۔

مجھے بھی کہانی سننے کی لَت ایک خاتون کی وجہ سے پڑی تھی۔ ابھی میری عمر چند برس کی ہوگی کہ میری پھوپھی مجھے خاندان کے واقعات، تاریخ کی کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ ہم ایک مشترکہ خاندان میں رہتے تھے۔ دادا، دادی، چچاؤں، چچیوں کے علاوہ اس گھرانے میں میری پھوپھی جان بھی رہتی تھیں۔ وہ حالات کے جبر کا شکار اور تنہا تھیں۔ لاہور چھاؤنی میں گرمیوں کی سنسان دوپہروں میں وہ مجھے اپنے ساتھ لٹا کر تھپکتے ہوئے کہانیاں سنایا کرتی تھیں۔ ان کے کمرے کی کھڑکی کے سامنے لگے نیم کے درخت سے سورج کی کرنیں چھن چھن کر آتیں اور کمرے کے پھول دار پردوں پر دھوپ چھاؤں کا کھیل کھیلتی رہتیں۔ ان شِکر دوپہروں میں مَیں ذہنی طور پر روس کے برفستانوں سے لے کر بنگال کے جنگلوں تک کی سیر کر آیا کرتا تھا۔ میرا دُدھیالی خاندان امرت سر سے ہجرت کرکے لاہور آیا تھا۔ سو پھوپھی کے سنائے واقعات اور یادوں کے وسیلے سے جسمانی طور پر لاہور رہتے ہوئے بھی میں نے اپنا بچپن امرت سر کے کمپنی باغ، ہاتھی دروازے اور امرت پانی اُگلتے کنوؤں کے گرد گزارا ہے۔

وہ لوگ دروغ گو ہیں جو کہتے ہیں کہ جن کے ہاں اولاد نہیں ہوتی اُنھیں کوئی یاد کرنے والا نہیں رہتا۔ میں نے ایسے صاحبِ اولاد لوگوں کو دیکھا ہے جنھیں ان کی اولاد نے زندہ درگور کردیا اور ایسے بے اولاد لوگوں کو بھی دیکھا ہے جن کی قبروں پر گُل پاشی جاری ہے۔ انسان کی اولاد وہ لوگ ہوتے ہیں جن سے اس نے محبت کی ہوتی ہے، جو اس کے خلوص کی خوشبو سے مہکتے ہیں اور جو خود بھی خالص سُچے ہوتے ہیں۔ سو میری پھوپھی جان نے بے شمار وارث چھوڑے ہیں جو ان کے لیے ہمہ تن و ہمہ وقت دعا گو رہتے ہیں۔

آج سوشل میڈیا کا زمانہ ہے، جب لوگ پھوپھی کے رشتے کاطنزیہ تذکرہ کرتے، اس تعلق کا مذاق اُڑاتے ہیں تو میری آنکھوں کے سامنے حامد مسعود کی پھوپھوامی آجاتی ہیں، میری اپنی پھوپھی جان آجاتی ہیں اور خوب صورت روحوں اور پاکیزہ ذہنوں والی وہ تمام محترم خواتین آجاتی ہیں جنھوں نے اپنے لاڈلے بھتیجے بھتیجیوں پر اپنی جانیں، اپنی زندگیاں نچھاور کیں، اُنھیں مقدس آیات کی طرح سنبھال کر رکھا، عقیدت سے، احتیاط سے، خاکِ کربلا کی طرح، آبِ زم زم کی مانند۔

Check Also

Bloom Taxonomy

By Imran Ismail