Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Irfan Javed
  4. Gandhi Ji Aur Pakistan

Gandhi Ji Aur Pakistan

گاندھی جی اور پاکستان

(حقائق سچ بولتے ہیں۔ ہمیں مروجہ تاریخ سے ہٹ کر سچائی کو جاننا، ماننا ہوگا)۔

"گاندھی کی وجہ سے ایک تہائی بھارت ہم سے کٹ گیا۔ گاندھی نے اپنی بھوک ہڑتال ختم کرنے کے لیے جو شرائط رکھی تھیں، ان میں سے ایک دہلی کی ان مساجد سے ہم دردی میں تھی جن پر ہندوؤں نے قبضہ کر رکھا تھا۔ لیکن جب پاکستان میں ہندوؤں پر پُرتشدد حملے کیے گئے تو انہوں نے پاکستان کے خلاف احتجاج یا مذمت میں ایک لفظ بھی نہیں کہا"۔

(نتھورام گوڈسے (قاتل گاندھی) کا حتمی عدالتی بیان)۔

1947 میں تقسیم کے بعد مہاتما گاندھی نے پاکستان کو اس کا حق دلانے میں اہم ترین کردار ادا کیا، خاص طور پر اس وقت کے افراتفری اور تشدد کے ماحول میں۔ اگرچہ گاندھی کے پاس کوئی رسمی اختیارات نہیں تھے، لیکن ان کے اقدامات کے ٹھوس اثرات تھے۔ حقائق اور اعداد و شمار پیشِ خدمت ہیں۔۔

تقسیم کے معاہدے کے تحت، بھارتی حکومت پر لازم تھا کہ وہ پاکستان کو مالی اور فوجی اثاثوں میں سے اس کا حصہ، 75 کروڑ روپے، منتقل کرے۔

پہلی قسط 20 کروڑ روپے کی صورت میں اگست 1947 میں ادا کی گئی، لیکن 55 کروڑ روپے کی رقم اکتوبر 1947 میں کشمیر پر ہونے والی پاک بھارت جنگ کی وجہ سے روک دی گئی۔

گاندھی جی نے اس تاخیر پر سخت احتجاج کیا اور دلیل دی کہ جنگ کے باوجود پاکستان اس رقم کا حق دار ہے۔

گاندھی جی کے اصرار کی وجہ سے بھارتی حکومت نے 15 جنوری 1948 کو بقیہ 55 کروڑ روپے جاری کیے، حالانکہ بیشتر بھارتی رہنما اور عوام اس کے سخت خلاف تھے۔

تقسیم کے بعد بھارت میں بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فسادات پھُوٹ پڑے، جن میں مسلمانوں کو بھارت کے مختلف علاقوں، بشمول دہلی اور آس پاس کے علاقوں، میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

گاندھی جی نے بھوک ہڑتال کے ذریعے امن قائم کرنے کی کوشش کی تاکہ ان مسلمانوں کی حفاظت کی جا سکے جو حملوں کا سامنا کر رہے تھے۔ ان کے اقدامات نے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف قتل وغارت گری کو بہت حد تک روکا۔

بھارت میں دہلی سے لے کر لکھنؤ تک میں آج بھی بے شمار مسلمان آباد ہیں۔ جب کہ لاہور سے لے کر راول پنڈی تک میں ہندوؤں کا نام و نشان نہیں۔

دہلی میں 13 جنوری سے 18 جنوری 1948 تک گاندھی جی کی بھوک ہڑتال نے مقامی رہنماؤں کو مسلمانوں کی حفاظت اور امن کی بحالی کے لیے اقدامات کرنے پر مجبور کیا۔ ان کی اس ہڑتال نے مسلمانوں کی لوٹی ہوئی جائیداد کی واپسی اور ان کے تحفظ کا بھی راستہ ہموار کیا۔

گاندھی جی نے اپنی اخلاقی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے تقسیم کے بعد ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مصالحت کی سنجیدہ کوششیں کیں۔

ان کی کوششوں نے ان علاقوں میں تناؤ کو کم کرنے میں عملی طور پر مدد دی جہاں فسادات عروج پر تھے۔

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر مختلف پوسٹس گردش کرتی رہیں جن میں ظاہر کیا گیا کہ قیام پاکستان کے بعد گاندھی جی نے پاکستان کا دورہ کیا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تقسیم کے بعد وہ کبھی پاکستان نہ آئے البتہ انہوں نے اس خواہش کا شدو مد سے اظہار کیا۔

تقسیم کے بعد لاہور، راولپنڈی اور کراچی جیسے شہروں کے دورے کی ان کی خواہش تاکہ وہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے بیچ مصالحت کروا سکیں بے حد اھمیت رکھتی تھی۔ قائداعظم کے لیے بھی یہ فسادات غیر متوقع تھے۔ وہ ان کی وجہ سے بے حد غمگین رہے تھے۔ اپنی بمبئی کی رہائش گاہ بھی انہوں نے قائم رکھی تھی تاکہ وہاں جا کر قیام کرتے رہیں۔ وہ مستقبل میں پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات کو امریکہ اور کینیڈا کے دوستانہ تعلقات کی طرح دیکھتے تھے۔

بہرحال، گاندھی جی اکثر شورش زدہ علاقوں میں اپنی موجودگی کو قیام امن کے لیےاستعمال کرتے تھے۔

23 ستمبر 1947 کو گاندھی جی کی دعائیہ تقریب ہوئی۔ یہ تقریب مقدس کتابوں کی تلاوت سے شروع ہوئی، جن میں قرآن پاک بھی شامل تھا۔ گاندھی جی کے آشرموں میں یہ غیر معمولی بات نہیں تھی۔ لیکن انتہائی مذہبی نفرت والے ماحول میں یہ ایک انقلابی قدم تھا۔ گاندھی جی نے سامعین سے پوچھا کہ کیا کسی کو قرآن پاک کی تلاوت پر اعتراض ہے۔ سب خاموش رہے۔

گاندھی جی نے کہا: "مسلمانوں نے جو کچھ کیا وہ اچھا نہیں ہے، لیکن اس میں قرآن کا کیا قصور ہے؟ اگر خدا کا کوئی بندہ گناہ کرے تو کیا ہم خدا کا نام لینا چھوڑ دیں گے؟ اگر خدا کے بندے کہیں کہ ہندوؤں نے جو کچھ کیا وہ برا ہے، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ گیتا بھی بری ہے؟"

گاندھی جی نے مزید کہا تھا: "میں لاہور جانا چاہتا ہوں۔ میں پولیس یا فوجی محافظ کے ساتھ نہیں جانا چاہتا۔ میں مسلمانوں پر ایمان اور بھروسے کے ساتھ جانا چاہتا ہوں۔ اگر وہ مجھے مارنا چاہتے ہیں تو مار دیں۔ اگر حکومت مجھے روکنا چاہے تو روک لے۔ لیکن حکومت مجھے کیسے روک سکتی ہے؟ اگر انہوں نے مجھے روکنا ہے تو انہیں مجھے مارنا پڑے گا۔ اگر وہ مجھے مار ڈالیں گے، تو میری موت تم سب کے لیے ایک سبق چھوڑ جائے گی"۔

یہ تمام کرنے اور کہنے کے لیے اخلاقی جرات اور استقلال چاہیے۔

افسوس صد افسوس، نفرت کی خلیج بڑھتی جا رہی ہے۔ اب بھارت میں کوئی گاندھی نہیں جو اُدھر کے بے کس مسلمانوں کو ہندُوتوا کے خونی جبر واستبداد سے بچا سکے۔

Check Also

Naye Meesaq Ki Zaroorat Hai

By Syed Mehdi Bukhari