Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Irfan Javed
  4. Coat Pent Walay Farishte Ke Par Nahi Hote

Coat Pent Walay Farishte Ke Par Nahi Hote

کوٹ پینٹ والے فرشتوں کے پرَ نہیں ہوتے

عبدالستار ایدھی اور دومیمن بھائیوں کا قصہ ہے۔ دو میمن بھائی مل کر کاروبار کرتے تھے اوربہت خوش حال ہوچکے تھے۔ ان میں ایسی قربت تھی کہ محاورے کی زبان میں اُن کے بیچ سے ہوا نہیں گزرتی تھی۔ اُن کا سب کچھ مشترک تھا۔ اُن بھائیوں نے کلفٹن کراچی میں ایک بڑا بیش قیمت بنگلاخرید رکھا تھا۔

جب اُن کی اولاد جوان ہوئی تو ان میں اختلافات نے جنم لیا اورانھوں نے اپنی سرمایہ کاری اورجائداد تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فیصلے پر عمل درآمد میں وہ قیمتی بنگلا حائل ہوگیا۔ اُن میں بول چال بند ہوگئی۔ یہ تنازعہ کچھ عرصہ چلتا رہا۔ اُنھیں مشترکہ دوستوں اور خیرخواہوں نے صلاح دی کہ وہ بجائے قانونی کارروائیوں میں پڑنے کے مل بیٹھ کر فیصلہ کرلیں۔ جب وہ اکٹھے ہوئے تو ماضی کے ان سنہرے دنوں کا تذکرہ ہوا جب وہ نوجوان اور یک جان دو قالب تھے۔ ان کے بیچ برف کیا پگھلی کہ وہ دونوں جذبات میں رونے لگے اوریہ کہتے ہوئے بغل گیر ہوگئے کہ لعنت ہے ایسی جائداد پر جو دو ایسے بھائیوں میں تفریق پیدا کردے جو ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔ انھوں نے وہیں فیصلہ کیا کہ ان کے بیچ وجہ تنازعہ بننے والے اُس بنگلے کو عبدالستار ایدھی کو عطیہ کردیا جائے۔ یوں نفرت کو جڑ ہی سے اُکھاڑ دیا جائے۔ چناں چہ وہ ایدھی صاحب سے ملے، بنگلے کی کنجیاں اور کاغذات ان کے حوالے کیے، سرکاری کاغذات میں وہ بنگلا ان کے نام منتقل کیا اور یوں وہ بیش قیمت جائداد انسانی بھلائی پر وقف کردی۔

آج اُن دو بھائیوں کے نام سے عام لوگ واقف نہیں مگر اُن کی بھلائی انسان کے اجتماعی ضمیر کے اوراق پر سنہرے حروف میں لکھی جا چُکی ہے۔

یہ 2012ء کی بات ہے۔ مجھے جناح اسپتال کراچی میں جانے کا موقع ملا۔ وہاں کینسر کے انقلابی علاج کی مشین نصب کی گئی تھی۔ اس شعبے اور مشینوں کے نظام کو سائبر نائف(Cyber knife) کا نام دیا گیا تھا۔ اس مشین سے آج بھی بھارت میں اکیس لاکھ پاکستانی روپے اور امریکا میں قریباً ایک کروڑ روپے میں علاج ہوتا ہے۔ پاکستان دنیا کا واحد ملک اور کراچی واحد شہر تھا جہاں اس سے علاج مکمل طور پر مفت ہوتا تھا۔ اُس مشین کو عطیہ کرنے والا بے نام پاکستانی تھا۔ تب بھی اس مشین کی مالیت غالباً پچیس تیس کروڑ روپے تھی۔ اس سارے نظام کو چلانے والے فرشتہ صفت اور نیک سیرت ڈاکٹر طارق محمود ہیں۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ وہ کون صاحب یا اصحاب ہیں جنھوں نے انسانیت کو ایک ایسا انتہائی قیمتی عطیہ دیا ہے جس نے اس مہنگے علاج کو پاکستان میں مفت کر دیاہے۔ ہم اپنے ملک پر تنقید تو کرتے رہتے ہیں لیکن یہ ہمارے وطن کے کون صاحب ہیں یا صاحبان ہیں جنھوں نے (آج کے حساب سے اربوں روپے)مالیت کا مشینوں کا نظام تحفہ کرکے دنیا بھر میں مثال قائم کردی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے بے بسی سے اپنے کندھے اُچکاتے ہوئے کہا"انھوں نے اپنی شناخت اور نام ظاہر نہ کرنے کی سخت ہدایات دے رکھی ہیں"۔

کراچی کے اہلِ دل لوگوں میں مَیں نے یہ خوبی دیکھی ہے کہ وہ عموماً بِلا تشہیر مل کر مثالی فلاحی کام کرتے ہیں، رب کی خوش نودی اور اپنے اطمینانِ قلب کے لیے۔ یہی وجہ ہے کہ ایدھی، چھیپا، سیلانی اور دیگر فلاحی ادارے ادھراجتماعی کاوشوں سے سامنے آئے۔ ملک کے دیگر حصوں میں بھی فلاحی کام کرنے والوں کی کمی نہیں۔ البتہ اُدھر چند لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ اسپتال کو پلنگ عطیہ کیا جائے تواُس پر بھی والدہ مرحومہ کے نام کی تختی نصب ہو، مسجد کا کوئی حصہ تعمیر کروا کر اپنایا اپنے اعزا کا نام جلّی حروف میں درج کرکے طالبِ دعا، ہوا جاتا ہے۔ یہ نمود وتمنائے ستائش کے زمرے میں آتا ہے۔ پانی کی سبیل پر پورے خاندان کا نام اِس گناہ گار نے خود دیکھا ہے۔ اگر فقط اتنا درج کردیا جائے کہ اس واٹرکولر، پلنگ، قالین، وارڈ یا عمارت کو عطیہ کرنے والوں کے لیے دعا کی جائے تو مقصد پورا ہوجاتا ہے۔

اہلِ دانش اس بات کو بھی خوب سمجھتے ہیں کہ غرض کُشا کو غرض مند نہیں ہونا چاہیے۔ جب ایک آدمی کسی کی حاجت پوری کرکے اُس سے صلے کی توقع باندھ لیتا ہے تو وہ حاجت کُشا کے بجائے حاجت مند ہوجاتا ہے۔ اُسے اپنی تعریف، عزت یا صلے کی حاجت ہوتی ہے۔ خبر بانٹنے والا خود خیرکا بھکاری بن جاتا ہے۔ اصل خوبی تو یہ ہے کہ آدمی بغیر کسی توقع کے انسانیت کی خدمت کرے، خدا کو راضی کرنے کے لیے یا اطمینان قلب کے لیے (موجودہ مغرب میں وہ لوگ جو مذہب بیگانہ ہیں اطمینانِ قلب اورسکونِ ذات کو ترجیح دیتے ہیں)۔

علاوہ ازیں نمود ونمائش سے پرہیزکے علاوہ لوگوں کی دست گیری، دکھی اور زخمی انسانیت کی خدمت کے لیے چند عوامل ذہن میں رکھنا بہتر ہوتا ہے۔

کسی ضرورت مند طالب علم کے ہاتھ میں رقم نہ دی جائے بلکہ براہ راست تعلیمی ادارے کے چالان پر فیس بھری جائے۔ کسی کے گھر میں راشن کی ضرورت ہے تو اسے راشن دیا جائے نہ کہ پیسے اورکسی بیمارکا علاج کروانا مقصود ہو تو اُسے ادویات دی جائیں یا سرجری کا بِل ادا کیا جائے۔

بھیڑوں کے غول میں ایک آدھ بھیڑیا ان کا بھیس بدل کا بھی شامل ہوجاتا ہے۔ چند عیارلوگوں کی عادت بن جاتی ہے کہ وہ عطیے پر دادِ عیش دیتے ہیں۔ اِس سے نہ صرف امداد کا مقصد فوت ہوجاتا ہے بلکہ کئی حقیقی ضرورت مند محروم رہ جاتے ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ وہ دوست جو اپنے دلوں میں توقع باندھے ہیں، نیکی کی تشہیر کی آس لگاتے ہیں یا صلے کے منتظر رہتے ہیں حاجت روا نہیں رہتے حاجت مند بن جاتے ہیں۔ یقیناََ یہ خسارے کا کاروبار ہے، سراسر خسارے کا سودا۔

Check Also

Muhammad Yaqoob Quraishi (3)

By Babar Ali