Chiragh e Toor, Saghar Siddiqui Aur Uss Ka Kutta
چراغِ طُور، ساغر صدیقی اور اُس کا کُتّا

برگد کے سائے میں حجام کُرسی شیشہ رکھے کسی گاہک کا شیو کر رہا ہوتا تھا، مونچھیں تراش رہا ہوتا تھا یا زلفیں۔ اُس کے برابر فُٹ پاتھ پر ایک شخص جنتریاں (کیا یاد آیا، کبھی کتابوں کی تمام دکانوں اور اخبار و رسائل بیچنے والوں کے پاس جنتریاں ضرور رکھی ہوتی تھیں)، ڈائجسٹ، قسمت کا حال بتانے والی سستی کتابیں اور اخباری کاغذ پر چھپی شاعری کی جیبی کُتب رکھے بیٹھا ہوتا تھا۔ تب شاعری کی کتابوں کی ایسی مانگ ہوتی تھی کہ یہ فٹ پاتھوں پر عام بِکتی نظر آتی تھیں، عام آدمی بھی اِس درجہ باذوق ضرور تھا کہ وہ سڑک کنارے ساحر لُدھیانوی، عبدالحمید عدم اور ساغر صدیقی کی کُتب کی ورق گردانی کرتا نظر آجاتا تھا۔ وہیں میں نے پہلی مرتبہ ساغر صدیقی کا نام جانا۔
لاہور چھاؤنی میں راحت بیکری کے باہر شہر میں پہلی مرتبہ کون آئس کریم متعارف کروائی گئی تھی سو وہاں لوگوں کا خاصا رش ہوتا تھا۔ برطانوی دور کی اس عمارت کے ایک جانب درسی کتابوں کی دکان تھی جہاں قلم، دوات، کاپیاں وغیرہ مِلا کرتی تھیں۔ اسکول کے زمانے میں میں وہاں جایا کرتا تھا، اس دکان کے عین سامنے حجام بیٹھتا تھا اور فُٹ پاتھ پر سستی کتابیں، ڈائجسٹ رکھے ہوتے تھے۔ اگر میری یادداشت درست ساتھ دیتی ہے تو عدم ؔ کی شاعری کی عام بکنے والی کتاب کا نام خرابات اور ساحر کی کتاب کا نام تلخیاں تھا۔ ساغر صدیقی کی منتخب شاعری کی کتاب کی پیشانی پر شعر لکھا ہوتا تھا۔
آؤ اِک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں
سرورق پر ساغر کا قلمی اسکیچ بنا ہوتا تھا جس میں لمبے بالوں والا ایک ملنگ شخص سر جھکائے کسی گہری سوچ میں گم ہوتا تھا، اُس کے پیچھے ایک بجھتے چراغ کی لو اور دھویں کی لمبی لکیر نظر آتی تھی۔ لڑکپن میں ایسے کردار زیادہ سحر طراز لگتے ہیں، جن میں کم نظر آتا ہو، زیادہ چھپا ہوا ہو۔ بہت بعد میں سوشل میڈیا پر جون ایلیا کی شاعری پر بنی ویب سائٹس پر ان کی شبیہ دیکھ کر میرا ذہن ساغر صدیقی کے قلمی اسکیچ کی ان سے مماثلت کی جانب چلا گیا تھا۔ بہرحال اُس کتاب میں ساغر صدیقی کا مختصر احوالِ زندگی کچھ ایسے پرُاسرار اور پرُکشش انداز میں تحریر کیا گیا تھا کہ ان کی شاعری سے زیادہ ان کی شخصیت ذہن سے چپک کر رہ گئی۔ یہ ایسی چپکی کی لاہور کی مال روڈ سے گورنمنٹ کالج جاتے ہوئے ہائی کورٹ کے باہر فٹ پاتھ پر نظر پڑتی تو ذہن ساغر صدیقی کی جانب چلا جاتا۔ شنید تھا کہ اپنی موت سے پہلے وہ اکثر اُدھر یا داتا دربار کے قریب مدہوش بیٹھے نظر آجایا کرتے تھے۔ بلکہ ایک جگہ تو یہ بھی پڑھا تھا کہ وہ کبھی کبھار گرمیوں کی سہ پہروں کو سرد مہری احباب سے دل گرفتہ فٹ پاتھ پر چند لکڑیوں کو آگ لگا کر ہاتھ تاپتے بھی نظر آجاتے تھے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
بعد ازاں ساغر صدیقی پر جو تحریر سامنے آئی پڑھ ڈالی۔ ان کا اے حمید کے مضامین میں تذکرہ ہو یا یونس ادیب کی ان پر تحریریں۔ متوسط گھرانے کا پڑھا لکھا لڑکا جس کی سنجیدہ شاعری کی دھوم امرت سر کے ایک مشاعرے میں ایسی مچی کہ لاہور کے ادبی حلقوں میں بھی انھیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ ایک حساس نوجوان جسے اُس کی پسند کی لڑکی سے بیاہ سے اس کے باپ نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ وہ کم تر گھرانے سے تعلق رکھتی تھی، ایک ایسا سخن طراز شعر ساز جس کے فلمی گیت ایسے مشہور ہوئے کہ ہر زبان پر آگئے، ایک ایسا سادہ منش معصوم انسان جسے ایک بہ ظاہر مہربان شخص نے جسم میں درد اور اضمحلال سے نجات کے لیے مارفیا کا انجیکشن لگایا تو یہ حساس شاعر جو بے مہری ئی زمانہ سے ایسا دکھی تھا کہ مارفیا کی غلامی سے شروع ہونے والی داستان ان رستوں سے گزری جہاں اُسے آتا دیکھ کر اُس کے دوست اپنا رستہ بدل لیتے تھے یا اُسے ہاتھ ملاتے ہوئے چونی تھما دیتے تھے، جیسے دو دہائی قبل منٹو کے دوست احباب اُسے دیکھ کر راہ بدل لیا کرتے تھے، اس انجام پر منتج ہوئی کہ داتا دربار کے سامنے فٹ پاتھ پر ساغر صدیقی کی لاش پڑی تھی، پاس صرف اُس کا ساتھی کُتّا بیٹھا تھا۔
سڑکوں پر آوارہ پِھرنے اور بچے کھچے روٹی کے ٹکڑوں پر پلنے والا کُتّا ساغر کی موت سے چھے برس پہلے اُسے سڑکوں پر گھومتے ہوئے مل گیا تھا۔ دونوں کی ایسی نِبھی کہ جدھر ہوش و خرد سے بیگانہ درویش شاعر جاتا، کتا اُس کے پیچھے پیچھے سائے کی طرح چلتا تھا۔ کسی نکڑ پر ساغر کمبل چادر ڈالے سو جاتا تو وہ کتا اُس کے برابر سو جاتا تھا۔ ساغر اور اس کا کتا مال روڈ، انارکلی بازار، ایبک روڈ، شاہ عالمی، اخبار مارکیٹ اور داتا دربار کے گرد و نواح میں نظر آتے تھے۔ فلم والے، نوآموز شعرا، رسائل کے مدیران وغیرہ چند ٹکوں کے عوض اُس سے اشعار لکھوالے جاتے۔ کبھی مزاجِ یار پر زیادہ سرمستی چھائی ہوتی تو وہ فٹ پاتھ پر اپنے سامنے موم بتی جلا لیتا، اُس کا کتا اس کے قریب بیٹھا ہوتا اور خود مگن و خود شکن ساغر پر اشعار کا نزول ہوتا اور وہ شعلے کی لو کو دیکھتا جھومتا جاتا اور اپنی تخلیق کی غنائیت میں کھوتا جاتا تھا۔
جولائی 1974ء میں ساغر موت کی کوٹھڑی میں چلا گیا، اُس کوٹھڑی میں سنّاٹا تھا اور بہت اندھیرا تھا۔ چراغِ طُور جلاؤ بڑا اندھیراہے۔ وہ 46 برس جیا۔ اُسے میانی صاحب کے قبرستان میں دفنا دیا گیا۔
ساغر کے مرنے کے بعد اُس کا کتا ان جگہوں پر ساغر کو ڈھونڈتا نظر آتا تھا جدھر وہ دونوں اکٹھے پِھرا کرتے تھے، سو جایا کرتے تھے۔ ساغر کی موت کے ایک برس بعد اُس کتے کی لاش عین اُس جگہ سے ملی جدھر ساغر کو مردہ پایا گیا تھا۔
آدمی بوڑھا، ضعیف اور مجبور ہوجائے تو لوگ اسے چھوڑ جاتے ہیں، بیمار بھی ہوجائے تو اپنے بھی پیچھے ہٹنے لگتے ہیں، جس گھر میں فاقے آجائیں وہاں رشتے چھوڑجاتے ہیں، معذور ہوجانے والی بیوی سے شوہر ایک پل میں آنکھیں پھیر لیتا ہے۔
کبھی سُنا، دیکھا کہ کسی بوڑھے، بیمار، غریب یا معذور ہوجانے والے آدمی یا عورت کو اُس کا پالتو کتا چھوڑگیا ہو؟
ساغر کا کتا مجھے اپنے لڑکپن سے ہانٹ کرتا آیا ہے، البتہ گزشتہ چند روز سے اُس کا خیال بار بار میرے ذہن میں آرہا ہے۔ شاید جولائی کا مہینہ آرہا ہے جب ساغر فوت ہوا تھا یا شاید اندھیرا ہے، چراغِ طُور سے بھی نہ کم ہونے والا اندوہ ناک اندھیرا۔

