Saturday, 20 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Irfan Javed
  4. Chand Ushaq Aur Khutoot

Chand Ushaq Aur Khutoot

چند عشاق اور خطوط

چند عشاق کا تذکرہ ہے۔

عرفان علی ڈنور، شب و روز حصولِ کتب اور مطالعے میں غرق۔ سندھ کے ایک گوشے میں بیٹھا یہ نوجوان عاشقِ صادق، ادبِ عالیہ کی کتب کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے، جب ان میں سے کوئی کتاب حاصل ہوجاتی ہے تو اسے پڑھنے بیٹھ جاتا ہے، پڑھتا کم ہے، سوچتا زیادہ ہے۔ وہ کتاب کے مطالعے سے کشید کردہ لطف و تفکر میں دوسروں کو بھی شریک کرنا چاہتا ہے سو اس پر ایک تفصیلی تبصرہ تحریر کرکے، ایسا تجزیہ جو خالصتاً اس کا اپنا ہوتا ہے کسی سے متاثر شدہ نہیں، وہ اسے کاغذ کی کشتی کی مانند جدید برقیاتی مواصلات کی ندیا پر رواں کر دیتا ہے۔

سیّد علی اسجد بہ ظاہر لاہور کا باشندہ ہے، درحقیقت وہ پوری دنیا کا باشندہ ہے کہ ادب کا قاری کسی ایک ملک کا شہری نہیں رہتا، پوری دنیا اُس کا وطن ٹھہرتی ہے۔ وہ کتاب پڑھتا ہے اور اس کے حقیقی کرداروں کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے، شہر شہر خاک چھانتا، قصبات و دیہات کی گلیوں میں پھرتا وہ اِک حالتِ جنوں میں سرگرداں رہتا ہے۔ میری کتاب سرخاب، میں آصف فرخی کا قلمی خاکہ پڑھا تو وہ لاہور سے کراچی ان کی قبر پر فاتحہ پڑھنے چلا آیا باوجود اس کے کہ وہ آصف صاحب سے کبھی ملا تھا اور نہ ہی انھیں اپنے سامنے دیکھا تھا۔ ایسے کئی لوگ ہیں، ادیب، دانش ور، سودائی جن سے ملنے کو وہ مشتاق رہتا ہے۔

ایک ایم آر شاہد نامی ادب اور ادیبوں کے عاشقِ صادق ہیں۔ انھیں میں نے احمد ندیم قاسمی مرحوم کی وفات سے دو روز پہلے اسپتال میں اُن کی ٹانگیں دباتے دیکھا تھا۔ یہ قبرستانوں کی خاک چھانتے ہیں، گورستانوں میں نایاب لوگوں کی قبروں کی تلاش میں رہتے ہیں۔

ایک غلام قادر تھا، سیال کوٹ کا غلام قادر جسے ریلوے اسٹیشن پر بیٹھ کر ریل کار کو آتے جاتے دیکھنا پسند تھا، اچھی چائے پسند تھی اور خوب صورت کتابیں اُس کے من کو بھاتی تھیں۔ اُس کی مرگِ ناگہانی پر ایک نوحہ میں نے بھی لکھا تھا۔ اُس سے میں کبھی ملا نہیں مگر اُس کی موت کی کسک نہ جانے کیوں میرے دل میں سر اُٹھاتی رہتی ہے۔

غلام قادر تھا اور گورش ہے۔

گورش جو خواب دیکھتا ہے، ایک ایسی دنیا کے جہاں ہر سُو انصاف ہو، جہاں غم کا گزر نہ ہو اور جہاں الجھنوں سے پاک ایک سیدھی سادی زندگی ہو۔ تلخیِ ایام اُسے تلخ کرتی ہے تو وہ مطالعے کا سہارا لیتا ہے۔ اندھیرے رستوں میں مطالعہ اُس کا راہ نما ہوتا ہے۔ اُس نے خطوط لکھے ہیں، گویا اپنے الفاظ کو کاغذ کی ناؤ پر ہوا کی لہروں پر اَن جانی منزلوں کی جانب روانہ کردیا ہے۔

ذاتی طور پر خطوط میری ذاتی دلچسپی کا موضوع بھی رہے ہیں۔ چھٹی جماعت مَیں میں نے راول پنڈی سے لاہور اپنے نانا کو چالیس صفحے کا ایک خط لکھا تھا۔ بچکانہ انداز میں لکھے اس خط میں درسی کتب سے نقل کیے گئے اشعار، اپنے روز وشب کا احوال اور اقوال تھے۔ نانا نے دمِ آخریں تک اُنھیں سنبھالے رکھا تھا۔ بعد کئی دوستوں کو خط لکھے، اخبارات، رسائل اور مدیران کو نامے بھیجے۔ یہ سودا کئی برس کچھ ایسا سر پر رہا کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں اسی شہرمیں رہنے والے دوستوں کو خطوط لکھ ڈالے۔ نامہ برجو جوابی خطوط لایا ان میں سے کئی آج بھی میری فائل میں محفوظ ہیں۔

ایک زمانہ آئے گا کہ بچے حیرت سے پوچھا کریں گے "ہائیں لوگ کبھی اپنے ہاتھ سے ایک دوسرے کو خط بھی لکھا کرتے تھے، اورمحبت نامے پھول بوٹوں سے مزین بھی کیا کرتے تھے"۔

مکاتیب غالب آشفتہ سرکے ہوں، جاں نثار اختر کے اپنی اہلیہ بیگم صفیہ اختر کے نام ہوں، راجا انور کے یاسمین کے نام ہوں، مرزا ادیب نے صحرا نورد سے لکھوائے ہوں، داؤد رہبر کے فلسفیانہ آمیزش والے فکر آمیز ہوں، قاضی عبدالغفارکے قلم سے لیلیٰ کے خطوط، ہوں یا عمرمیمن کے ہوں، ایک بھرپور تحقیق کا تقاضا کرتے ہیں، علیحدہ صنفِ ادب قرار پانے کے تمام تر لوازم رکھتے ہیں۔

گورش نے بھی خطوط لکھے ہیں اور انھیں کتابی صورت میں لاکر برُے آدمی کے خطوط، کا عنوان دیا ہے۔ اس عنوان کے برعکس وہ ہرگز برُا آدمی نہیں، غالباً ملامتی صوفیوں کے کسی طبقہء فکر سے تعلق رکھتا ہے۔ کبیر، خودملامتی کے جذبے سے معمور، پکار اُٹھا تھا۔

برُا جو دیکھن میں چلا، برُا نہ ملیا کوئے
جومن کھوجا اپنا تو مجھ سے برُا نہ کوئے

غالباً گورش نے اپنے آپ کو برُا اس لیے کہا ہے کہ اُس کے ہاتھ میں نشتر ہے جس سے وہ سماج کے بدن کو چھوتا ہے، جانچنے کے لیے کہ سماج ہنوز سورہا ہے یا جاگ اٹھا ہے۔ وہ کھرے جذبات سے تحریر کرتا، الفاظ کے طومار سے بچتا، راست گوئی کا راستہ اختیار کرتا اپنی طرز سخن خود تراشتا ہے۔ بے چینی اور اضطراب کی کیفیت میں اور انتشار کے زمانے میں بغیر کسی ابہام کے، اُس نے یہ خطوط تحریر کیے ہیں، سوتے ہوؤں کو جگانے کے لیے، جاگنے والوں کو ہوشیار کرنے کے لیے۔

جو حاضر کے جوانوں اور تخلیق کاروں کے باطن میں جھانکنے کا شوق و ذوق رکھتا ہے اُسے یہ کتاب پڑھنی چاہیے۔

کراچی کتاب میلا میں ہال نمبر 2 میں فکشن ہاؤس کے اسٹالز 83 اور 84 پر یہ کتاب دست یاب ہے۔

Check Also

Chand Ushaq Aur Khutoot

By Irfan Javed