Anokhe Log
انوکھے لوگ

تاریخ ایک اہم دوراہے پر کھڑی تھی۔ ایک ووٹ سے کروڑوں لوگوں کی قسمت بدلنا تھی، دنیا کے سب سے بڑے زرعی میدانی خطے کی جغرافیائی تقسیم یا وحدت برقرار رکھنے کا فیصلہ ہونا تھا۔ تب متحدہ پنجاب میں تین کروڑ ساٹھ لاکھ افراد آباد تھے جن میں 53 فی صد مسلمان، 30فی صد ہندو، 14فی صد سِکھ اور3فی صد دیگر مذاہب وعقائد کے لوگ تھے۔
مسیحی اسپیکر پنجاب اسمبلی دیوان بہادر ایس پی سنگھا کھڑے ہوئے۔ سب کی نظریں اُن پر تھیں۔ اسمبلی میں مسلم لیگ، جومغربی پنجاب کو پاکستان میں شامل کرنا چاہتی تھی اوراس کے مخالفین کے ووٹ برابر، یعنی 88 تھے۔ ایس پی سنگھانے اپنا ووٹ مسلم لیگ کے حق میں دے دیا اور مغربی پنجاب پاکستان کا حصہ بن گیا۔ اُن کی اقتدا میں دو دیگر مسیحی ممبرانِ اسمبلی فضل الٰہی اور سی ای گبن نے بھی پاکستان کے حق میں ووٹ دے دیا۔ یوں مملکتِ خداداد پاکستان کی موجودہ شکل میں تشکیل و تکمیل مسیحی اراکینِ اسمبلی کے مرہونِ منّت ٹھیری۔
ایس پی سنگھا نے اس سے پہلے شہر شہر قریہ قریہ پاکستان کے حق میں مہم چلائی تھی، انھیں تصورِ پاکستان سے اتنا جذباتی لگاؤ تھا کہ جب ماسٹر تارا سنگھ نے پنجاب اسمبلی کے باہر کرپان لہرائی تو ان کے بیچ ہاتھا پائی ہوگئی تھی، ایک کرسچئن انٹیلیکچویل جو شوا فضل دین نے قائداعظم کے ایما پر اخبارات میں پاکستان کے حق میں زوردار مضامین لکھنے کا آغاز کیا اور 1941ء میں جب قائداعظم نے مسلم لیگ کے موقف کی ترجمانی کے لیے ڈان اخبار کا اجرا کیا تو پوتھن جوزف جیسے پرُوقار کرسچئن انٹیلیکچوئل کواس میں ایڈیٹر کی اھم ذمہ داری تفویض کی گئی۔ اُس دَور کی اشرافیہ اور دانش وروں کی اکثریت کی ذہنی تربیت مشنری اداروں نے کی تھی جن میں لاہور کے ایف سی اور کنیئرڈ کالجز کے علاوہ گورڈن کالج راول پنڈی، ایڈورڈز کالج پشاور اور مَرے کالج سیال کوٹ شامل تھے۔
یہ مرے کالج سیال کوٹ سے فارغ التحصیل چلبلے، حاضر دماغ اور شوخ ادا صحافی و دانش ور خالد حسن ہی تھے جنھوں نے نادرِ روزگار مسیحی فوٹو گرافر چاچا ایف ای چودھری کی ننانوے ویں سال گرہ پر لکھا تھا "چاچا اپنے تمام تر حواس میں ہمارے بیچ موجود ہیں، ان کی تیز یادداشت کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ انھیں ہر وہ شخص یاد ہے جس نے ان کا قرض واپس کرنا ہے، بہ شمول میرے۔ اپنے جیل روڈ کے گھر میں چاچا اپنے پرانے کیمرے، اخباری تراشے، تصاویر اور اپنی مرحومہ بیوی کی گڑیاؤں اور ماچس کی ڈبیوں کا خزانہ محفوظ رکھتے تھے۔ ان تصاویر میں ایک تصویر فیض احمد فیض کی تھی جس میں وہ کرکٹ پیڈز پہنے پاکستان ٹائمز الیون کی جانب سے بیٹنگ کرنے جارہے تھے۔ فیض صاحب کی سب سے بڑی خواہش شاعر بننے کی نہ تھی بلکہ ٹیسٹ کرکٹر بننے کی تھی"۔
مسیحی فوٹوجرنلسٹ چاچا ایف ای چودھری پاکستان کی سماجی، ثقافتی اور سیاسی تاریخ کا لازوال کردار تھے۔ ان کا آتش فشاں پبلی کیشنز کے روح رواں منیر احمد منیر کو دیا گیا طویل انٹرویو خاصے کی شے ہے۔ اس میں انھوں نے بتایا تھا کہ 1920ء میں جب لاہور میں پہلی مرتبہ بجلی آئی تو سب سے پہلے ریلوے اسٹیشن، ٹولنگٹن مارکیٹ اور مال روڈ پر آئی تھی۔ اُس دور میں ڈاکیا گاؤں میں گھنگھرو لگے ڈنڈے کو بجا کر خط کی اطلاع کرتا تھا اور تاروصول کرنے پر، اُسے پڑھے بغیر ہی گھر میں ماتم کا سماں ہوجاتا تھا۔ دیکھا جائے تو یہ زیادہ پرانی بات نہیں، چاچا کی زندگی کے ابتدائی سرے کی باتیں ہیں۔ 1970ء میں پیدا ہونے والے بندے کواپنے لڑکپن کی اسّی کی دہائی کل کی بات لگتی ہے، یعنی ہاتھ بڑھایا اور چھولیا۔ اس سے ساٹھ برس پہلے پیدا ہونے والے بندے کو 1914ء کی پہلی جنگِ عظیم کل ہی کی بات لگتی ہے۔ آدمی کو اپنی ساٹھ ستراسّی برس کی عمر مختصر معلوم ہوتی ہے، البتہ کاغذ کتاب پر سات آٹھ دہائیاں خاصی طویل مدت نظر ہے۔ یہ سب دیکھنے کا معاملہ ہے، تصوّر کی بات ہے۔
ایک عظیم کرسچئن پاکستانی ایس پی سنگھا سے چلنے والی بات خالد حسن کے وسیلے سے دوسرے قابلِ احترام کرسچئن پاکستانی چاچا ایف ای چودھری تک پہنچی، مگر بات اِدھر تھمی نہیں کہ چاچا کا سپوت اس قوم کا قابلِ فخر بیٹا بن کر اُبھرا۔ 1965ء کی جنگ کا ہیروایرفورس پائلٹ سیسل چودھری چاچا کا برخوردار تھا۔ وہ قوم کی آنکھوں کا تارا ٹھیرا، مُحب وطن ایسا تھا کہ اُس دَور کے اہم ممالک عراق اور اُردن کی ایرفورس کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے بعد جب اُن ملکوں نے اُسے جب وہاں قیام اور مراعات کی پیش کش کی تو اُس نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا"میرا ملک اورمیری کمیونٹی میری منتظر ہے۔ "اپنی کرسچئن کمیونٹی کے حقوق کے لیے اُس کی جدوجہد بھرپور توانائی سے جاری رہی۔
یہ وہی کرسچئن کمیونٹی تھی جس سے قائداعظم نے وعدہ کیا تھا کہ اُن کا ساتھ دینے پر وطن کے قیام کے بعد اُسے دیگر اقلیتوں سے زیادہ مراعات حاصل ہوں گی۔ افسوس قائد کی زندگی نے زیادہ وفا نہ کی۔ ویسے بھی ہم بہ حیثیت قوم نسیان کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ ہمیں سانحہ مشرقی پاکستان میں ہماری خاطر جانیں قربان کرنے والے، مال لٹانے والے بہاری بھائی بہن یاد نہیں رہے، اُنھیں اِدھر بسانے کے وعدے یاد نہیں رہے تو مسیحی تو پھر ہمارے ساتھ اِدھر آباد ہیں اور انھیں ترقی کے بہم مواقع اور سہولتیں مل ہی جاتی ہیں۔ باضمیر روشن دماغ مسیحی جسٹس کارنیلئس کوبھی آگے بڑھنے کا موقع مل ہی گیا تھا۔
کیسا اتفاق ہے کہ پاکستان کے تین شان دار مُنصفینِ اعظم، ٹاپ جج غیر مسلم ٹھیرے، جسٹس کارنیلئس، جسٹس دُراب پٹیل اور جسٹس بھگوان داس۔ اس فہرست میں مسلمان جج جسٹس جواد ایس خواجہ کا نامِ نامی بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔
تاریخ کے دوراہے پر تواینگلو انڈین رومن کیتھولک خانوادے سے تعلق، کیمبرج یونی ورسٹی برطانیہ سے تعلیم، لیاقت علی خان کی کابینہ کے وزیرِقانون جو گیندر ناتھ منڈل کے سیکریٹری، 1960ء میں ایوب خاں دور میں بہ طورچیف جسٹس تعیناتی حاصل کرنے والے جسٹس ایلون رابرٹ کارنیلئس بھی کھڑے تھے۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ 1953ء کے موسمِ بہار کے اواخر میں گورنر جنرل ملک غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین کی حکومت گرادی۔ نتیجتاً قانون ساز اسمبلی نے گورنر جنرل کے اختیارات میں تخفیف کردی۔ چناں چہ گورنر جنرل نے جنرل اسمبلی ہی تحلیل کردی اور ایمرجنسی نافذ کردی۔ محمد علی بوگرہ کے تحت نئی حکومت میں جنرل ایوب خان کو وزیرِ دفاع مقرر کردیا گیا۔ اسمبلی کے سربراہ مولوی تمیز الدین نے اسمبلی کی تحلیل اور ایمرجنسی کے نفاذ کو عدالت میں چیلنج کردیا۔ 1954ء میں چیف جسٹس منیر کی سربراہی میں قائم بینچ نے گورنر جنرل کے فیصلے کو برقرار رکھا۔ یوں وطنِ عزیز میں نظریہئی ضرورت، کی ترکیب عملی طور پر وجود میں آئی۔ البتہ اس فیصلے میں ایک استثنیٰ تھا۔ جسٹس کارنیلئس نے اختلافی نوٹ لکھا۔ وہ نوٹ تاریخ کا حصہ بن گیا اور ضمیرِ انساں کی پکار قرار پایا۔
ضمیرِ آدم کی ایک ایسی ہی پکار تھی جس نے ایاز مورس سے اُن انوکھے اور روشن لوگوں کا احوال قلم بند کروایا جنھیں انھوں نے زندہ لوگ قرار دیا ہے۔ تیرگی میں روشنی کی شمعیں تھامنے والے چنیدہ لوگ انوکھے ہی تو ٹھیرے۔ ان میں سے بیش تر لوگ ایاز کے ہم عقیدہ ہیں جیسے چاچا ایف ای چودھری، سیسل چودھری، جسٹس کارنیلئس، ڈاکٹر ڈینس آئزک، اعظم معراج اور دیگر دوسرے عقیدے کے، ٹھہریئے، وہ چنددیگر لوگ بھی تو ان کے ہم عقیدہی ہیں جیسے ڈاکٹر اکبر ایس احمد، محمدنفیس زکریا، ڈاکٹر خالد سہیل وغیرہ کہ ان سب کا عقیدہ انسانیت کی خدمت اور روشنی عام کرنا ہے۔
اوپر کے واقعات سے ہٹ کر جو ایاز کی تحریر کا حصہ نہیں، انہوں نے کوشش کی ہے کہ تیس انوکھے قیمتی لوگوں کا احوال یوں بیان ہوجائے کہ ان شمعوں کا بھی تذکرہ ہوجائے جو انھوں نے روشن کی ہیں۔ اس سعئی بیش قیمت کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ ان لوگوں کا تذکرہ حرف و روشنائی کی صورت زندہ رہے، معراج آدمیت کا جہاں بھی ذکر چھڑے تو بات اِن تلک بھی پہنچے۔ بیچ بیچ میں ایاز نے دل چسپ حقائق و واقعات کویوں نقش کیا ہے کہ صناعی دیدہ زیب دِکھے۔
ایک عجب واقعہ ہے۔ جب میرپورخاص کے محسن ڈاکٹر ڈریگو، جو اپنی بے لوث خدمات کے لیے معروف تھے، کا انتقال ہوتا ہے تو وہاں کے شہریوں کی خواہش تھی کہ ان کی تدفین اُدھر کے مسیحی قبرستان میں نہ کی جائے بلکہ ایسے نمایاں مقام پر کی جائے جہاں ایک بڑے کتبے پر ان کی خدمات کا تذکرہ ہوتا کہ لوگوں کو آگاہی رہے اور ان میں بھی خدمتِ انسانیت کا شوق بیدار رہے۔ جب ان کی بیگم نے فیصلہ کیا کہ انھیں کراچی کے گورا قبرستان میں دفن کیا جائے کیوں کہ ان کے رشتے داروں کی زیادہ تعداد کراچی میں تھی، تو اُدھر کے مکینوں کو مایوسی ہوئی۔ یوں ان کا جسدِ خاکی کراچی میں پیوندِ خاک ہوا۔ البتہ دو برس بعد جب ان کی بیگم صاحبہ کا انتقال ہوا تو آخری لمحات میں ان کی وصیت تھی کہ اُنھیں میرپورخاص میں دفن کیا جائے۔ یعنی شوہر کراچی اور بیگم میرپورخاص، غالباً ان کے پیشِ نظر ہوگا کہ میاں بیوی کی زیادہ قربت باہمی محبت کو کھوٹا کردیتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
ایاز مورس جسٹس کارنیلئس کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ اُن کی وطن سے محبت کا یہ عالم تھا کہ باوجود اپنے صاحبِ حیثیت بیٹوں کے اصرار کے، جو بیرونِ ملک خوش حال زندگی گزار رہے تھے، انھوں نے اِدھر ہی رہنا اور مرنا پسند کیا۔ ایک انوکھی بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنے آخری ایام کسی گھر میں نہیں گزارے بلکہ ہوٹل میں گزارے، فلیٹیز ہوٹل لاہور میں۔
ایک ایسی ہی انوکھی حقیقت کا انکشاف معروف ڈراما نگار ڈاکٹر ڈینس آئزک پر لکھی تحریر میں بھی ہوتا ہے۔ ڈاکٹر ڈینس سے وہ پوری نسل بہ خوبی واقف ہے جس نے اکلوتے پی ٹی وی کے زمانے میں پروان چڑھا۔ وہ شہرت کے عروج پر کینیڈا چلے گئے اور وہاں گم نامی کی زندگی کو ترجیح دی۔ انھیں حرف ک، سے خبط کی حد تک لگاؤ تھا، کینیڈا کا انتخاب کرنے اورکرب، کروبی اور ک، کے علاوہ دیگرحروف سے شروع ہونے والے ناموں کے ڈرامے تحریر کرنے والے ڈراما نگار کی اوّلین خواہش ہوتی تھی کہ ان کے ڈرامے کا نام ک، سے شروع ہو۔
شاعر، ادیب اور معلم گُل زار وفا چودھری اپنی ظرافت اور حاضر جوابی کے باعث خاصے مقبول تھے۔ یہی وجہ تھی کہ اُن کی عطا الحق قاسمی صاحب سے خوب نبھتی تھی۔ ایک مرتبہ لاہور میں مسیحی خاک روبوں کی ایک بستی کو اپنے مقام سے ہٹا کر اُنھیں متبادل جگہ فراہم کر دی گئی۔ وہ اپنا گھر بار چھوڑکر نئی جگہ منتقل نہ ہونا چاہتے تھے سوا نھوں نے وہاں احتجاج کیا اور اپنا احتجاجی کیمپ قائم کردیا۔ گُل زار وفا مسیحی تھے اور احتجاج کرنے والوں سے ہم دردی رکھتے تھے سو وہ بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔ اس کیمپ پرپولیس نے دھاوا بولا اور سب کو گرفتار کرکے لے گئی۔ جب پولیس کو معلوم ہوا کہ گُل زار وفا سرکاری ملازم ہیں اور تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں تو اُنھیں رہا تو کردیا گیامگر ان کا تبادلہ مری کردیا گیا۔ یہ ان کے لیے بہت مشکل مرحلہ تھا۔ ایسے میں عطا الحق قاسمی نے انھیں کہا کہ وہ کوشش کرتے ہیں کہ ان کا تبادلہ واپس اپنے اہل خانہ کے پاس لاہور کردیا جائے، بہ شرطے کہ وہ دوبارہ اُدھر احتجاج نہ کریں۔ اس پرگُل زار وفا نے اٹل لہجے میں کہا۔
"احتجاج، وہ تو میں پھر بھی کروں گا"۔
یوں انھوں نے ذاتی سہولت پر اصولوں کو ترجیح دی۔
ڈاکٹر خالد سہیل کینیڈا میں مقیم ماہر نفسیات اور ادیب ہیں۔ ان کی شہرت ایک قابل اور درد دل رکھنے والے خوب صورت انسان کی ہے۔ ایاز مورس کے لیے وہ ایک شجر سایہ دار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اُن کی زبان سے ایاز ایک فکر افروز بات لکھتے ہیں۔
"جب میں ایڈورڈز کالج پشاور میں پڑھا کرتا تھا ان دنوں ہمارے پرنسپل آسٹریلیا کے استاد فل ایڈمنڈز تھے۔ ایک دن وہ ہمیں پڑھانے آئے تو بہت خوب دکھائی دے رہے تھے۔ ہم نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ کل میرا بیٹا انگلینڈ سے سائنس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لے کر لوٹا ہے میں اس لیے خوش ہوں۔ ایک طالب علم نے پوچھاسر، کیا اب آپ اس کے لیے دلہن تلاش کریں گے؟ فل ایڈمنڈز کے بزرگ چہرے پر مشفقانہ مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ کہنے لگے میرا بیٹا، اپنے لیے خود ہی دلہن تلاش کرلے گا اور اگر وہ اپنے لیے شریک حیات تلاش نہیں کرسکتا تو اس کا مطلب ہے وہ شادی کے لیے تیار نہیں ہے۔ ڈاکٹر خالد سہیل کہتے ہیں کہ جو والدین اپنے بچوں کو اپنے فیصلے خود کرنا سکھا دیتے ہیں وہ جیتے جی بے فکر ہوجاتے ہیں لیکن جن والدین کے بچے دانش مندانہ فیصلے نہیں کرسکتے وہ ساری عمر یہی سوچتے رہتے ہیں کہ ہمارے مرنے کے بعد ان جوان بچوں کا کیا ہوگا؟"
بچوں اور اولاد کے حوالے سے گوجرانوالہ سے تعلق رکھنے والی سسٹرزیف جنھیں "گلوبل ٹیچر ایوارڈ" اور کروڑوں روپے کی رقم انعام میں دی گئی، سے ایاز اپنی ملاقات کا احوال لکھتے ہوئے ایک ایسے اہم امر پر زور دیتے ہیں جسے عموماً ترقی پذیر نیم خواندہ معاشروں میں نظر انداز کردیا جاتا ہے۔ وہ امر ہے بچوں پر اساتذہ کے تشدد کو قابلِ قبول سمجھنا۔ سسٹر زیف ایک پرُاعتماد اور لائق طالبہ تھیں۔ ان کے ذہن میں، ہر ذہین بچی کی طرح، سوالات اُبھرتے رہتے تھے۔ ان کے روایتی اساتذہ ان سے زچ رہتے اور انھیں تشدد کا نشانہ بناتے تھے۔ ساتویں جماعت میں انھوں نے اسکول چھوڑ دیا، خود پڑھنا شروع کیا، سوالات کے جوابات تلاش کرنے شروع کیے، اخبارات کے باقاعدہ مطالعے کی عادت اپنالی، سو ان کا علم و سیع ہوناشروع ہوا، جوابات ملنے لگے، اِردگرد کے بچے ان سے راہ نمائی کے لیے آنے لگے اور انھوں نے اپنے گھر کے صحن میں 120 بچوں سے تعلیم و تدریس کا سلسلہ شروع کردیا۔ یہ سلسلہ پھیلتا چلاگیا اور سسٹر زیف کا نام ملکی حدود سے نکل کربین الاقوامی مدار میں داخل ہوگیا۔ ایسی کام یابی کے باوجودوہ انتہائے عجز سے کہتی ہیں۔
"زیفZephaniah سے نکلا ہے جس کے معنی خداوند کی حفاظت، کے ہیں"۔ سو وہ اپنی کام یابی کو خداوند کی عنایت کے سوا کچھ اور نہیں سمجھتیں۔
اور ایسا ہی معاملہ عالم گیر شہرت حاصل کرنے والی، کنیئرڈ کالج لاہور سے طویل ترین چالیس برس تک منسلک رہنے، اُس کی پرنسپل بننے والی میرافیلبوس کا ہے جو تعلیم اور خدمتِ انسانیت کو اپنا مشن قرار دیتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ اگر اُنھیں اُن کے شوہر کی معاونت حاصل نہ ہوتی تو وہ اس مشن میں کام یابی حاصل نہ کر پاتیں۔ انھوں نے اپنی کتاب کا آغاز رابندر ناتھ ٹیگور کے ایک قول سے کیا ہے۔ یہ وہی قول ہے جس نے ایاز مورس سے یہ مضامین لکھوائے، یہ وہی مقصدِ اعلیٰ ہے جس نے جسٹس کا رنیلئس سے برحق فیصلے کروائے، جس نے چاچا ایف ای چودھری اور ان کے فرزند کو آدمیت اور وطن سے محبت سکھائی، میرا فیلبوس، ڈاکٹرجاوید اقبال، اعظم معراج، کارڈینل جوزف کوٹس، ڈاکٹر خالد سہیل اور ان جیسے انوکھے، سنہرے، زندہ لوگوں کے ضمیر بیدار رکھے اور انھیں خوابیدہ انسانیت کو بیدار کرنے کا طلائی مقصد عطا کیا۔
"میں سوگیا اور خواب میں دیکھا کہ زندگی خوشی ہے۔ میں بیدار ہوا اور دیکھا کہ زندگی خدمت ہے۔ میں نے خدمت کی اور دیکھا خدمت خوشی ہے"۔ (ٹیگور)

