Akhtar Baloch Main Sharminda Hoon
اختر بلوچ میں شرمندہ ہوں

کیا آدمی کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ اُسے ایک ایسا شخص زیادہ یاد آئے جس سے اُس کا رسمی سا تعلق ہو بہ نسبت اُن لوگوں کے جن سے اُس کا گہرا قلبی تعلق رہا ہو؟ میرے ساتھ ایسا ہوا ہے، کئی بار۔ بھلے وہ سیال کوٹ کا درویش منش غلام قادر ہو یا کراچی کا اختر بلوچ، مجھے بے طرح یاد آتے ہیں، ہجوم کی تنہائی میں یاتنہائی کی رونق میں۔
گزر چکے لوگوں میں کراچی میرے لیے آصف فرخی، تصدق سہیل اور اختر بلوچ ہے۔ جب میں کراچی سے دُور ہوتا ہوں تو کراچی کا زیادہ سوچتا ہوں اور جب اس میں اقامت پذیر تو کم کم۔ البتہ اختر بلوچ اکثر میرے ساتھ ساتھ رہتا ہے، ایسا آدمی جس سے واسطہ کم کم تھا، زیادہ یاد آتاہے۔
کئی برس بعد کراچی لَوٹا تو میں نے اپنے عزیز دوست سیّدکاشف رضا سے کہا تھا کہ میرے کراچی کے ایسے دو نمایاں چہرے خاک بسر ہوگئے جن کے بغیر عروس البلاد کا تصوّر محال ہے، آصف فرخی اور اختر بلوچ۔
کئی برس اُدھر کا واقعہ ہے کہ میرے سَر پر کراچی کھوجنے کا سودا سمایا۔ کسی نے اختر بلوچ نامی سودائی کا حوالہ دیا جو اِس شہر کا نقیب تھا۔ میں نے اختر بلوچ کا فون نمبر حاصل کیا اور ملاقات طے کی۔
یہ اُن ہی دنوں کی بات ہے کہ ایک پارسی دوست (جو بعد ازاں ہجرت کرگئے) کے ساتھ کراچی پارسی انسٹی ٹیوٹ کے پارسیوں کے سالانہ ڈنر اور فنکشن میں شمولیت کا موقع ملا۔ اس عمارت میں بار ہا جانا ہوا۔ اس وقت اس احاطے میں پاکستان میں آباد کُل پارسیوں کی نصف تعداد موجود تھی، یعنی ہزار بارہ سو۔ اس عشایے میں غیر پارسی شریک نہ ہوسکتے تھے، مگر ایک استثنیٰ قائم ہوا۔ اس منفرد تقریب اور تاریخ میں منجمد راج دَور کی عمارت کا تذکرہ پھر کبھی۔ گیلس لگائے، انگریزی اخبار پڑھتے، بلیئرڈ کھیلتے، دھیمی آواز میں انگریزی میں گفت گو کرتے بوڑھے پارسیوں کا تذکرہ پھرکبھی۔
اور یہ اُن ہی دنوں کی بات ہے کہ گوا کے مقامی پرتگیزی النسل مختصر کرسچئن کمیونٹی کی ماہانہ محفل موسیقی و خورونوش میں شرکت کا بھی موقع ملا۔ اُدھر گٹار بجایا جاتا تھا، ساٹھ ستر کی دہائی کے ویسٹرن گانے گائے جاتے تھے، جاز میوزک ماحول کو گزشتہ صدی میں لے جاتا تھا اور متمول اعلیٰ تعلیم یافتہ ودیگر گوون گئے دنوں کو یاد کرکے آب دیدہ ہوجاتے تھے۔ شنید ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں میں یہ معاملہ بھی ختم شُد ہوا۔
یہ تب ہی کی بات ہے کہ موٹی موٹی حیران آنکھوں والا اختر بلوچ مجھے اور میرے ایک دوست کو یہودیوں کے قبرستان لے گیا تھا۔ سنگِ مرمر کے کتبوں اور چھے کونوں والے ستارۂ داؤدی کے امتیازی نشانوں والے مقبروں سے اٹا گورستان! اُس قبرستان میں داخل ہونے کے لیے اختر بلوچ اپنے خصوصی تعلقات بروئے کار لایا تھا۔ غالباً وہ اُدھر باقاعدگی سے آتا رہا تھا۔ تب ہی وہ کئی قبروں کی تاریخ اور اُدھر سے منسلک روایات سے خوب واقف تھا۔
اُس پہلی ملاقات کے بعد چند ملاقاتیں اور بھی ہوئیں۔ وہ میرے گھر آیا، ہم ایک پنج تارہ ہوٹل میں ملے، پریس کلب میں اکٹھے ہوئے اور صدر کے ایرانی ریستورانوں میں گپ شپ رہی۔ وہ مجھے قدیم مندروں میں لے گیا، ایم اے جناح روڈ پر واقع شری سوامی نارائن مندر ہویا ساحلِ سمندر پرواقع رتنیشور مہادیو مندر ہو، یونانی ستونوں اور لکڑی کے شان دار کام والی فری میسن لاج ہو، پرانے شہر کی گنجلک گلیاں ہوں، نیپئر روڈ کی متروک ہوچکی عمارت بلبل ہزار داستان ہو یا کئی اور کھنڈر عمارتیں جن میں گودام کھل چکے، جو اُجڑ گئیں۔
اختر بلوچ سے آخری تفصیلی ملاقات تب ہوئی جب وہ مجھے، میرے دوست انگریزی کے ناول نگار ایچ ایم نقوی اور دو دیگر احباب کو ہندوؤں کے اُس تعزیے میں لے گیا جو محرم میں حسینی برہمن نکالتے تھے۔ اُس رات ہم اُس علاقے میں خوب پھرتے رہے۔ ہندو بہن بھائیوں کی آبادی کے برابر میں مسیحی ہم وطن منتقل ہورہے تھے۔ گویا دو نمایاں اقلیتیں، ہندو اور مسیحی ہم سائے ہوگئے تھے۔ بہ قول منیر نیازی
شہر دے مکان
اپنے ای ڈرتوں
جڑے ہوئے نیں
اِک دُوجے دے نال
ہمارا آیندہ کا ارادہ منوڑا میں واقع سکھ بستی کے دورے کا تھا اورسندھ کی ساحلی پٹی پر اُس مقام پر جانے کا بھی تھا جہاں سبز سمندری کچھوے اور زیتون رنگ کے Tortoise (کچھوے) سیکڑوں میل کا سفر کرکے افزائشِ نسل کے لیے آتے ہیں، کہ معاشی جبر نے مجھے شہر بدر کردیا۔
کئی ماہ گزر گئے، چند برس نکل گئے، اختر بلوچ سے رابطہ معطل ہوگیا۔ ایک مرتبہ میں کراچی پریس کلب میں اجمل کمال صاحب سے ملنے گیا۔ وہاں بیٹھا اُن کا انتظار کررہا تھا اور کسی گہری سوچ میں گم تھا۔ اُن دنوں ایک خاکہ زیرِ غور تھا سو اس کے خیال میں سرتاپا ڈوبا ہوا تھا۔
جس میز پر میں بیٹھا تھا اُس کے سامنے ایک میز کے گرد چند لوگ بیٹھے سگریٹ اور چائے پی رہے تھے۔ اُن میں ایک شخص سے میری نظریں ملیں، اُس کا چہرہ شناسا لگا اور نظروں میں اپنائیت تھی مگر میں اپنی سوچ میں غلطاں تھا سو اس آدمی کو پہچاننے کا زیادہ تردّد نہ کیا۔ تھوڑی دیر میں اجمل کمال صاحب تشریف لائے تواُن کے ساتھ بالائی منزل پر چلا گیا۔ مجھے کچھ راہ نمائی درکار تھی۔ وہاں ان سے گفت گو میں ایسا گُم ہوا کہ اُس شخص کا چہرہ میری یادداشت سے محو ہوگیا۔
واپسی پر زینہ اُترتے ہوئے وہ شخص دوبارہ مجھے وہاں بیٹھا نظر آیا۔ اب کے وہ تنہا بیٹھا تھا۔ میں نے اُس پر چھچھلتی نگاہ ڈالی۔ ہماری نظریں ملیں۔ اُس کی نظروں میں شناسائی کی رمق تھی۔ مجھے کہیں پہنچنے کی جلدی تھی سو تیز تیز چلتا پریس کلب سے باہر آگیا اور اپنے آیندہ پروگرام پر غور کرنے لگا۔
اُس رات میں سونے کے لیے بستر پر دراز ہوا تو یک دم اُس شخص کا چہرہ میری نظروں کے سامنے آگیا۔ روشنی کے کوندے کی طرح مجھ پر منکشف ہوا آہ، وہ تو اختر بلوچ تھا، اُس کی ہیئت بدل چکی تھی، وہ بُوڑھیا گیا تھا۔ "کرانچی والا" جیسی منفرد کتاب کا منصف، حاشیے پر رہنے والی تیسری جنس کا خیرخواہ و ہم درد اور ان پر تیسری جنس، نامی تصنیف سامنے لانے والا صاحبِ دل آدمی"میں بلوچستانی" جیسی لطیف تخلیق کا تخلیق کار اختر بلوچ چند برس میں کئی برس بوڑھا ہوچکا تھا۔ اُس رات میں نے ارادہ باندھا کہ اگلے روز اختر بلوچ کو فون کرکے اُس سے شرم ساری کا اظہار کروں گا اور دل کی گہرائیوں سے معافی مانگوں گا کہ یہ میری نالائقی، نااہلی اور بے مروتی ہے کہ میں واقعی اُسے پہچان نہ سکا اور جلد ملاقات کا پروگرام تشکیل دیں گے۔
اگلے روز مصروفیت نے مجھے ایسا باندھا کہ میں اُسے فون نہ کرسکا۔ ایک آدھ مرتبہ اُس کا ذہن میں آیا تو خیال کیا کہ میں اِدھر ہوں، وہ بھی اِدھر ہے سو اُس سے مل کر معذرت کرلوں گا کہ بالمشافہ ملاقات فون کی گفت گو سے بہتر رہے گی۔
دو تین روز مَیں میں اسلام آباد چلا گیا۔
یہ جولائی 2022کا آخری دن تھا کہ سوشل میڈیا پر خبر پڑھی کہ صحافی و مصنف، انسانی حقوق کا پرچارک اور مختلف تحریکوں کا سرگرم کارکن اختر بلوچ چون برس کی عمر میں مختصر علالت کے بعد انتقال کرگیا۔
یہ خبر مجھ پر بجلی کے کوندے کی طرح گری اورمجھے دولخت کرگئی۔
اب مجھے کراچی آئے ایک برس ہونے کو ہے۔ جی کرتا ہے کہ اختر بلوچ کہیں مجھے ملے تواُس سے معافی مانگوں۔ میں ہوں، میرا جذبہ ندامت بھی ہے مگر اختر بلوچ نہیں ہے۔ دو ایک مرتبہ میرا پریس کلب جانا ہوا، وہاں احباب سے نظریں چرا کر میں نے اختر بلوچ کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔ وہاں اختربلوچ تو کجا، اُس جیسا بھی کوئی نہ تھا۔
میں نے اپنی زندگی میں ایک سبق کئی بار سیکھا، اب کے زیادہ شدت سے یہ احساس مجھ پر وارد ہوا کہ اگر کسی دوست، کسی محبوب، یہاں تک کہ کسی اجنبی سے معافی مانگنی ہو تو ہرگز دیر نہ کرو۔ ایسا نہ ہو کہ تم رہو، احساسِ ندامت فزوں تر ہوتا رہے مگر وہ شخص نہ رہے۔
تب ہر گزرتے روز کے ساتھ ندامت کی صلیب کا بوجھ بڑھتا رہتا ہے جسے آدمی کو تاعمرکاندھے پر لے کر چلنا ہوتا ہے۔
(14مئی اختر بلوچ کی سال گرہ تھی)۔

