Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Irfan Javed
  4. Aik Shehar Ki Katha

Aik Shehar Ki Katha

ایک شہر کی کتھا

کتابیں میرے لیے فرار کا ذریعہ بھی ہیں، زندگی کے تلخ حقائق سے فرار، یہ میرے لیے عافیت کے جزائر بھی ہیں، باہر کے چنگھاڑتے شور سے چند گھنٹوں کے لیے خاموشی اور سکون کے جزائر پر بسرام، یہ میرے لیے مسرت کے تحائف بھی ہیں، ادیبوں، فلسفیوں اور شاعروں کی دھیمی آواز میں لوریاں ہیں، آگہی آشنا کرتی مسرت کے تحائف ہیں۔

دورِ حاضر کی مصروفیات اور توجہ کے مختصر ہوتے دورانیے(شارٹ اٹینشن سپیین) میں اگر کوئی کتاب آپ کی توجہ اپنی جانب اس طرح مبذول کر لے کہ آپ اس میں کھو کر رہ جائیں اور مزید پڑھنے کی لذت آمیز خواہش آپ کو وہ کتاب تب تک پڑھواتی چلی جائے جب تک آپ اسے ختم نہ کر لیں، تو یہ اس کتاب کے مصنف کی آج کے منتشر توجہ والے زمانے کے ایک بڑے امتحان میں سرخروئی ہے۔

امریکی لبنانی اسکالر نکولس نسیم طالب نے بہت سی کتابیں خریدنے کے مثبت اثرات اور خوبیوں پر طویل پُر مغز مضمون لکھا، بھلے آپ وہ ساری کتابیں پڑھ نہ پائیں۔ مجھے اس مضمون میں مذکور فوائد میں سے بیشتر فوائد حاصل ہوتے رہتے ہیں۔ مثلاً کئی مرتبہ ایسی کتب، جن کی تعریف عام ہوتی ہے، پڑھ کر مایوسی ہوتی ہے۔ بہت سے مصنفین اور ناشرین وسیع حلقے تک پہنچنے کے لیے مبالغے سے کام لیتے ہیں، جس کی وجہ سے سنجیدہ قاری چند کتابوں سے مایوس ہو کر مطالعے سے کنارہ کش ہو جاتا ہے۔

البتہ بعض نسبتاً کم معروف کتب کی شکل میں غیر متوقع طور پر خوش رنگ نگینے مِل جاتے ہیں۔

بعض دوست معترض ہوتے ہیں کہ میرے لکھے کتابوں پر تبصروں میں زیادہ مثبت پہلوؤں کو اجاگر کیا گیا ہوتا ہے، خامیوں، کمیوں کا خفیف انداز میں تذکرہ ہوتا ہے۔ میں ان سے عرض کرتا ہوں کہ میں لکھتا ہی ان کتب پر ہوں جو مجھے پسند آتی ہیں، میری پُر عجز، ناقص رائے میں جو کتب کم زور ہوتی ہیں اُن پر لکھنے سے احتراز کرتا ہوں، مصنف سے معذرت کر لیتا ہوں یا عجز و احترام سے ٹال دیتا ہوں۔ میرا مقصد قارئین کو اچھی کتابوں سے متعارف کروانا ہے، کسی کی دل آزاری کرنا یا اپنی علمیت و غیر جانب داری کی دھاک بٹھانا نہیں۔

نکولس نسیم طالب، کتابوں کا عافیت کے جزائر اور اپنی مثبت تحریروں کا تذکرہ یوں ہوا کہ گزشتہ دنوں کی مصروفیات اور ملال آلودہ شاموں میں اپنی خریدکردہ کتب کی ورق گردانی کرتے ہوئے ایک تازہ شائع شدہ کتاب نے میری توجہ اپنی جانب مبذول کروا لی۔ " ایک شہر کی کتھا" کے عنوان کی کتاب کا تذکرہ اور اس پر تبصرہ میری نظر سے نہ گزرا تھا۔ اس کے مصنف عبدالوحید رانا میرے لیے آج بھی اجنبی ہیں۔ انہیں کسی ادبی میلے میں نمایاں ہوتے دیکھا اور نہ ہی کسی مذاکرے میں ان سے تعارف ہوا۔

البتہ انہوں نے اتنی جان دار اور دل چسپ کتاب لکھی ہے کہ اس نے کسی اچھے ناول کی طرح مجھے اپنے ساتھ باندھ لیا۔ نام سے تو یہ اسلام آباد کی کتھا لگتی ہے، مگر یہ ہماری ادبی و سیاسی تاریخ کا براہ راست مشاہدہ کرنے والے صحافی و ادیب کی کتھا ہے۔ قدرت اللہ شہاب، ممتاز مفتی اور ڈاکٹر محبوب الحق سے بالمشافہ ملاقاتوں سے لے کر دارالحکومت کے ابتدائی ایام کے بنگالی مکینوں، سڑک پر چلتے عام کرداروں کی عادات و واقعات سے مزین یہ کتاب خاصے کی چیز ہے۔ عموماً سیاسی و سماجی معاملات پر لکھتے ہوئے مشاق مصنفین کا قلم بھی چُوک جاتا ہے اور وہ طویل تبصروں سے ہڈ یتی کو بور بنا دیتے ہیں۔ یہ کتاب براہ راست مشاہدات اور دل چسپ واقعات کی خوب صورت مالا ہے۔

اس کتاب کے ناشر سنگ میل کو چاہیے کہ ایسی کتب کی زیادہ تشہیر کرے تاکہ ایسی اچھی کتابیں قارئین کے علم میں آسکیں۔

Check Also

Gumshuda

By Nusrat Sarfaraz