Aik Shayar, Aik Editor Aur Jannat Mirza
ایک شاعر، ایک ایڈیٹر اور جنت مرزا

ایک عشائیے میں ایک شاعر بتانے لگے کہ سوشل میڈیا پر ان کے دسیوں ہزار فالوورز ہیں۔ ان کی شاعری کی ایک کتاب گزشتہ دِنوں شائع ہوئی تھی۔ دریافت کیا کہ تب تو اس کتاب کے کئی ایڈیشن بِک گئے ہوں گے؟ بات سُن کر خاموش ہو گئے۔ میں نے بھی کریدنا مناسب نہ سمجھا، بے لحاظی میرے مزاج کا حصہ نہیں۔ بعدازاں ایک مشترکہ دوست نے بتایا کہ تازہ شعری مجموعے کا نصف ایڈیشن بھی نہیں بِکا۔ اس مجموعے میں وہ اشعار بھی موجود ہیں جن پر داد دینے والے ہزاروں تھے۔
ایک فہیم و دانا دوست سے بات ہوئی تو تاسف سے کہنے لگے کہ کتاب خریدنے اور پڑھنے کی روایت دم توڑتی جا رہی ہے۔ جب گزارش کی کہ لاہور اور کراچی کے ایکسپو میں منعقد ہونے والے کتاب میلوں میں جو ہجوم ہوتا ہے وہ کن لوگوں کا ہوتا ہے؟ بلا مبالغہ دسیوں ہزار کتب(مذہبی کے علاوہ) فروخت ہوتی ہیں، تو گہری سوچ میں چلے گئے۔ ان سے عرض کیا کہ ان دنوں مجھے ایک شک ہے جو یقین میں بدلتا جا رہا ہے کہ سوشل میڈیا کے مثبت اثر کے تحت لوگ ایک دوسرے کو دیکھ کر کتابیں خرید زیادہ رہے ہیں، پڑھ کم رہے ہیں۔
ایک دوست صفِ اول کے ایک اخبار میں ایڈیٹر تھے۔ بتانے لگے کہ سوشل میڈیا پر چند فعال، منفرد اور مقبول دوستوں کو اخبار کے لیے باقاعدہ کالم لکھنے پر آمادہ کیا۔ ان میں سے ایک آدھ دوست ہی متاثر کُن انداز میں باقاعدگی سے لکھ پایا۔ دیگر دوست چھوٹی سانس کے مالک نکلے، دہرانے لگے، تنوع اور اورجنیلیٹی ماند پڑ گئی یا پھر باقاعدگی قائم نہ رکھ پائے۔ بتانے لگے کہ آج بھی کاغذی تحریر کو وقعت حاصل ہے، سوشل میڈیا پر شہرت پانے والے بہت سے(تمام نہیں)شعرا کتاب شائع کرنے سے کتراتے ہیں۔ کتاب سچ بولتی ہے۔
جنت مرزا ایک خوش شکل سوشل میڈیا سٹار ہیں۔ ان کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے کبھی اوچھے، سستے انداز اختیار نہیں کیے۔ ان کی وسیع شہرت کو دیکھتے ہوئے ان کو ایک فلم" تیرے باجرے دی راکھی"میں کاسٹ کیا گیا۔ فلم سُپر فلاپ ہوگئی۔
سوشل میڈیا جدید زندگی کا اٹوٹ حصہ ہے۔ اس کی اہمیت مسلمہ ہے۔ البتہ دُکھ تو یہ دیکھ کر ہوتا ہے کہ کئی، خوبیوں والے لوگ، جو طویل و مستقل ریاضت اور ارتکاز سے بہترین ادیب، فن کار، مبصر اور شاعر بن سکتے تھے، اعلی فن پارے تخلیق کر سکتے تھے، فوری توجہ اور داد کے لالچ اور جھانسے میں اپنی خوبیوں کو ضائع کر گئے۔
سوشل میڈیا کتنے اچھے اور باصلاحیت لوگوں کو کھا گیا۔

