Abbu, Deewar Aur Main
ابو، دیوار اور میں

(تامل زبان کی سبق آموز سچی روداد، اُردو میں)۔
"میرے ابو بوڑھے ہو گئے تھے اور چلتے ہوئے دیوار کا سہارا لیا کرتے تھے۔ آہستہ آہستہ ان کی انگلیوں کے نشان دیواروں پر نظر آنے لگے، ایسے نشان جو ان کی کمزوری اور محتاجی کی علامت تھے۔
میری بیوی کو دیواروں پر پڑنے والے نشان پریشان کرتے تھے۔ وہ اکثر شکایت کرتی کہ دیواریں گندی ہو رہی ہیں۔ ایک دن ابو کے سر میں درد تھا، انہوں نے تیل لگایا اور چلتے ہوئے دیوار کا سہارا لیا، جس سے دیوار پر تیل کے دھبے پڑ گئے۔
اس بات پر میری بیوی نے مجھ سے ناراضی ظاہر کی۔ غصے میں آ کر میں نے ابو سے سخت لہجے میں کہا کہ وہ دیوار کو ہاتھ نہ لگایا کریں۔ ابو خاموش ہو گئے۔ ان کی آنکھوں میں درد تھا۔ مجھے بھی شرمندگی ہوئی، مگر تب میں کچھ کہہ نہ سکا۔
اس دن کے بعد ابو نے دیوار کا سہارا لینا چھوڑ دیا۔ ایک دن وہ اپنا توازن کھو بیٹھے اور گر پڑے، ان کے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ ان کا آپریشن ہوا، لیکن وہ مکمل طور پر صحت یاب نہ ہو پائے اور چند ہی دنوں میں وہ ہمیں چھوڑ گئے۔
میرے دل میں شدید پچھتاوا تھا۔ میں ان کی وہ درد بھری نظریں کبھی بھلا نہ سکا اور نہ ہی خود کو معاف کر سکا۔
کچھ عرصے بعد ہم نے سوچا کہ گھر کو روغن کروایا جائے۔ جب رنگ کرنے والے آئے تو میرے بیٹے نے جو اپنے دادا سے بہت محبت کرتا تھا، ان دیواروں پر رنگ کرنے سے منع کر دیا جہاں اُس کے دادا کی انگلیوں کے نشانات تھے۔
رنگ کرنے والے سمجھدار لوگ تھے۔ انہوں نے ان نشانات کے گرد خوبصورت دائرے بنا دیے گے تاکہ وہ دیوار میں سج جائیں۔
آہستہ آہستہ وہ نشان ہمارے گھر کی پہچان بن گئے۔ جو بھی گھر آتا، وہ اس دیوار کی تعریف ضرور کرتا۔ البتہ کسی کو معلوم نہ تھا کہ اس سجاوٹ والی دیوار کے پس منظر میں کیا حقیقت پنہاں ہے۔
وقت گزرتا گیا۔ اب میں بھی بوڑھا ہو چکا تھا۔ ایک دن چلتے ہوئے مجھے بھی دیوار کا سہارا لینا پڑا۔ تب مجھے اپنے ابو سے اپنا رویہ یاد آیا۔ میں نے سہارا لیے بغیر چلنے کی کوشش کی۔
میرا بیٹا یہ سب دیکھ رہا تھا۔ وہ فوراً میرے پاس آیا اور بولا۔
"پاپا، دیوار کا سہارا لیجیے، ورنہ آپ گر جائیں گے"۔
پھر میری پوتی دوڑتی ہوئی آئی اور بولی۔
"دادُو دادُو، آپ میرا کندھا پکڑ لیں"۔
یہ سن کر میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
کاش میں نے بھی اپنے ابو کے ساتھ ایسا ہی رویہ رکھا ہوتا تو شاید وہ مزید چند دن جی لیتے۔
میرے بیٹے اور پوتی نے سہارا دے کر مجھے صوفے پر بٹھا دیا۔ پھر میری پوتی اپنی ڈرائنگ بک لے آئی۔ اس نے مجھے دکھایا کہ اس کی ٹیچر نے اس کی ایک پینٹنگ کی بہت تعریف کی تھی۔ وہ پینٹنگ اسی دیوار کی تھی جس پر میرے ابو کی انگلیوں کے نشانات تھے۔ اس پینٹنگ کے نیچے لکھا تھا۔
"کاش ہر بچہ اپنے بزرگوں سے اسی طرح محبت کرے"۔
میں اپنے کمرے میں گیا، اپنے مرحوم ابو کی روح سے گڑگڑا کرمعافی مانگی اور بہت رویا۔
ایک دن ہم سب کو بوڑھا ہونا ہے۔
اگر اس وقت آپ کے گھر میں بزرگ موجود ہیں تو ان کی دل و جان سے دیکھ بھال کیجیے۔ وہ اپنی عُمر کے ہاتھوں مجبور ہیں۔ انہیں محبت اور عزت کی ضرورت ہے"۔
ادھر یہ تامل روداد ختم ہو جاتی ہے۔
اگر آپ نے اپنے کسی بزرگ سے کبھی دانستہ یا نادانستہ کوئی زیادتی کی ہے تو اس کا ازالہ کرنے میں دیر نہ کیجیے۔ ایسا نہ ہو کہ جب آپ بوڑھے ہو جائیں تو احساسِ ندامت آپ کو زیادہ کچوکے لگائے۔ ہمارے بزرگ ہمارے کسی بھی فرنیچر، پینٹنگ، گاڑی، وغیرہ پر ہم سے زیادہ حق رکھتے ہیں۔
ہم اپنے بزرگوں سے ہیں، وہ نہ ہوتے تو ہم بھی نہ ہوتے۔ وہ درخت تنے ہیں، ہم شاخیں پتے اور پھل ہیں۔
{ہر بڑی کہانی پُر شکوہ الفاظ اور چونکانے والے واقعات پر مشتمل نہیں ہوتی۔ بعض اوقات سادہ جُملوں اور عام زندگی میں بڑی باتیں، گہرے معانی ہوتے ہیں}۔

