Friday, 26 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Imtiaz Ahmad/
  4. Ye Tarbiyat Hai

Ye Tarbiyat Hai

یہ تربیت ہے

شروع شروع میں تو میں بھی حیران ہوتا تھا کہ ہر کوئی ایسا کیوں کر رہا ہے؟ میں نے پاکستان میں زندگی بھر یہی دیکھا اور یہی کیا تھا۔ ٹریفک جام ہو تو جہاں بھی جگہ ملے گھس جاو، لائن کاٹ دو، دوسرے سے پہلے آگے پہنچ جاو، میں نے پاکستان میں کبھی گاڑی تو نہیں چلائی لیکن موٹر سائیکل پر یہی کیا کرتا تھا اور کبھی شرمندگی کا احساس تک نہیں ہوا تھا کہ میں دوسرے لوگوں کا حق مار رہا ہوں۔

آتی گاڑیوں کے سامنے موٹر سائیکل وغیرہ لے جا کر راستہ بند کر رہا ہوں، ایمبولینس کا راستہ بند ہو رہا ہے، کوئی میری وجہ سے ہسپتال نہیں پہنچ پائے گا، کبھی ایسا کوئی احساس پیدا ہوا اور نہ ہی ایسا خیال آیا۔ وجہ بالکل سادہ ہے۔ نہ کبھی کسی کو ٹریفک لائن میں لگے دیکھا نہ کسی نے سمجھایا کہ ایسا نہیں کرتے بلکہ آگے نکلنے کی کوشش میں آپ سامنے آنے والی گاڑیوں کا راستہ بھی بلاک کر دیتے ہیں اور ٹریفک جام طویل ہوتا جاتا ہے۔

مجھے یہ تربیت جرمنی میں آنے کے بعد ملی کہ انسان اصولوں کے تحت چلتے ہیں۔ اپنی لائن میں رہنا چاہیے، جلدی میں آگے نکلنا کسی کا حق مارنے کے مترادف ہے۔ میں اب پاکستان میں جاوں تو اپنی لائن میں موٹر سائیکل رکھتا ہوں لیکن میرے ساتھ بیٹھا ہر کوئی یہی کہتا ہے کہ اس طرح شام تک آپ ادھر ہی کھڑے رہیں گے کوئی نہیں راستہ دے گا آپ کو۔

وہ کسی حد تک ٹھیک بھی کہتے ہیں۔ لوگ آپ کے سامنے موٹر سائیکل یا گاڑی کا ٹائر گھسا دیں گے اور ذرا برابر شرمندگی محسوس نہیں کریں گے۔ پچھے دنوں میں ڈنمارک گیا تو راستے میں کئی جگہ ٹریفک جام ملا۔ آگے کوئی حادثہ نہیں ہوا، لیکن لوگ فوری طور پر راستہ بنانا شروع کر دیتے ہیں کہ خدانخواستہ ایمبولینس کو آنا پڑا تو اس کے لیے راستہ ہونا چاہیے۔

اس کو بچاو کا راستہ کہتے ہیں۔ یہاں کوئی پولیس نہیں ہے، کوئی کیمرہ نہیں ہے۔ سبھی لوگوں کو اپنے اپنے گھر جانے کی جلدی بھی ہو گی، لیکن کوئی گاڑی کو آگے گھسیڑنے کی کوشش نہیں کرتا، کوئی راستہ بلاک نہیں کرتا۔ اگر کوئی ایسا کرے بھی تو سارے لوگ اس کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ بدتہذیب کہاں سے آ گیا ہے؟

یہ اصل میں تربیت ہے، عوامی یا اجتماعی رویے ہیں، جو آپ کو تہذیب یافتہ یا پڑھا لکھا ثابت کرتے ہیں۔ یہ نعروں سے نہیں آتی، ٹویٹر پر سیاسی جنگیں کرنے سے نہیں آتی، اس کے لیے ایک طویل سفر کرنا پڑتا ہے، اخلاق کا سفر، تہذیب سیکھنے کا سفر، میں جب بھی ایسی "چھوٹی چھوٹی" چیزیں دیکھتا ہوں تو سب سے پہلا خیال یہ آتا ہے کہ یار ہم پاکستان میں کب اس سطح پر آئیں گے کہ خود بخود لائنیں بنانا شروع کر دیں؟

وہ وقت کب آئے گا، جب ہم لائن توڑنے کو فخر، رتبے، اثرو رسوخ یا طاقت کی علامت نہیں بلکہ اسے ایک بدتہذیبی، دوسروں کا حق مارنے، بد اخلاقی یا نا انصافی کے برابر سمجھیں گے۔

Check Also

Governor Hai Aik Bhala Sa

By Najam Wali Khan