Wo Muhabbat Jis Ka Hum Izhar Na Kar Sake
وہ محبت، جس کا ہم اظہار نہ کر سکے

مجھے کبھی یاد نہیں پڑتا کہ والد صاحب نے کبھی مجھے گود اٹھایا ہو، یا میں نے کبھی ان کے کندھوں پر سواری کی ہو۔ جرمنی آنے سے پہلے تک ہم گلے بھی ملتے تھے تو فقط عید پر ہی ملتے تھے۔
والد صاحب کے ساتھ تعلق بلا کا تھا لیکن ہم محبت کے اظہار میں کترانے والے معاشرے میں رہ رہے تھے، گفتگو بھی مختصر سی ہوتی تھی، انہیں کوئی شکایت بھی کرنی ہوتی تو وہ مجھ سے پہلے اماں جی کو کہتے تھے کہ اسے سمجھاؤ!
زمانہ اچانک بدلہ ہے اور اس کے ساتھ ہی والدین کے اولاد سے محبت کے اظہار کے طریقے بھی۔
خیر بارہویں جماعت تک میری طرف سے تو والد صاحب کے لیے بس تکریم ہی تھی، احترام تھا لیکن محبت کا اظہار کہیں نہیں تھا، نہ ان کی طرف سے کبھی محسوس ہوا، یا شاید میں نے محسوس ہی نہیں کیا تھا، کبھی یہ سوچ ہی نہیں آئی تھی کہ والد صاحب ہم سے محبت کرتے ہیں۔
ہاں میں انہیں دبایا ضرور کرتا تھا اور وہ کبھی کبھار چار پائی پر بیٹھے بیٹھے بدلے میں مجھے کوئی روپیہ دو روپے بھی پکڑا دیتے تھے۔
لیکن پھر چند واقعات ایسے ہوئے کہ والد صاحب کے لیے میری تکریم یا احترام محبت میں بدل گئے۔ ہماری شٹرنگ میٹریل کی دکان تھی، لوگ لینٹر ڈالنے کے لیے پھٹے وغیرہ لے جاتے تھے، کبھی سامان پورا واپس نہیں کرتے تھے تو کبھی کرایہ ادا نہیں کرتے تھے۔
ابو جی مجھے کبھی کسی گاؤں بھیجتے اور کبھی کسی گاؤں جانا پڑتا تھا۔ بارش ہوتی تو کچے راستوں پر سائیکل چلانا مزید مشکل ہو جاتا تھا، کئی کئی کلومیٹر سائیکل چلا کر تھک جاتا تھا۔
بہانے بہانے سے کہتا تھا کہ کل چلا جاؤں گا، کبھی کہتا تھا کہ کسی سے تھوڑی دیر کے لیے موٹر سائیکل لے دیں، جلد واپس آ جاوں گا!
ابو جی ڈانٹتے تھے کہ تم گئے کیوں نہیں ہو پیسے لینے، گھر کے خرچے چلانے ہیں، میں بوڑھا بندہ تم سب کے لیے کیا کیا کروں؟
اسی طرح ایک دن میں پیسے لینے گیا تو، جس شخص نے دینے تھے، اس نے میرے ساتھ کافی بدتمیزی کی، کہ بھاگ جاؤ! کوئی پیسہ نہیں ملنا۔ میں شعر و شاعری پڑھنے والا بندہ تھا، دل تب بھی چھوٹا تھا، اب بھی کچھ خاص بہادری نہیں آئی، اس کے کچھ سخت الفاظ دل کو لگے اور میں آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو لیے واپس آ گیا۔
ابو جی کو اندازہ تھا کہ یہ تو کبھی نہیں رویا، پھر آج کیوں رو رہا ہے؟ میں نے دبی دبی آواز میں کہانی سنائی تو ابو جی نے میرا ہاتھ پکڑا اور ہم سیدھے اس شخص کے پاس چلے گئے۔
ابو جی نے اس کو اچھی خاصی سنائیں کہ تمہیں شرم نہیں آتی ایک بچے کے ساتھ بدتمیزی سے بات کرتے ہوئے؟ پیسے بھی تم نے دینے ہیں اور میرے بیٹے کی بے عزتی بھی کر رہے ہو!
زندگی میں پہلی مرتبہ مجھے احساس ہوا کہ میں تنہا نہیں ہوں، والد صاحب خود مجھے ڈانٹتے ہیں لیکن ان کے لیے یہ ناقابل برداشت ہے کہ کوئی دوسرا شخص مجھ سے بدتمیزی کرے یا اچھا سلوک نہ کرے! پتہ نہیں کیوں اس دن میری برسوں کی تھکاوٹ اُتر گئی کہ میرے والد میرے ساتھ ہیں۔
یہ وہ زمانہ طالب علمی تھا، جب میں فرسٹ ایئر میں معاشی حالات کی وجہ سے ناکام ہو کر گھر واپس آ گیا تھا اور ابا جی کو اندر ہی اندر دکھ کھائے جاتا تھا کہ اس لڑکے کا کیا بنے گا؟ کیسے کمائے گا یا کیسے اپنا مستقبل بہتر بنائے گا؟
فکر تھی اور وہ گاہے بگاہے مجھ پر غصے کی صورت میں نکلتی تھی۔
گندم کی کٹائی کا سیزن ابھی شروع نہیں ہوا تھا اور گاؤں دیہاتوں میں ابھی تعمیراتی کام بھی نہیں شروع ہوئے تھے۔ مندی چل رہی تھی اور ابو پریشان بھی تھے۔ انہی دنوں قریبی گاؤں سے ایک شخص ٹرالی ٹریکٹر لے کر آیا کہ شٹرنگ کا سامان چاہیے۔ ابو خوش ہوئے کہ کوئی گاہک تو آیا ہے، کرایہ طے ہوا اور سامان ٹرالی پر لادھنا شروع کر دیا۔
لوہے کے گارڈر کافی وزنی ہوتے ہیں۔ اکثر ان کو آگے پیچھے کرنا ہوتا تو میں ہی ابو جی کے ساتھ کروایا کرتا تھا۔ اس دن گرمی کافی زیادہ تھی، عصر کا وقت تھا، ابو جی نے اس ٹریکٹر والے کو کہا کہ میرے ساتھ اٹھواؤ تاکہ گاڈر ٹرالی میں رکھیں، اس نے مونچھوں کو بل دیتے ہوئے کہا کہ اس لڑکے سے اٹھواؤ، اسے کیوں رکھا ہوا ہے؟
ابو جی کو اس کا انداز پسند نہیں آیا، فوراً بولے کہ ہٹے کٹے ہو کر تمہیں شرم نہیں آتی، یہ کمزور سا لڑکا اتنے بھاری اٹھا سکتا ہے؟ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ سامان نہیں چاہیے تو باقی بھی نیچے اتارو اور کسی اور سے لے لو! یہ دوسرا واقعہ تھا، جب ذہن میں آیا کہ تمام تر ڈانٹ ڈپٹ کے باوجود وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں!
ان دنوں وہ، اپنے ہر ملنے والے شخص سے کہتے تھے کہ یار اس بیٹے کا کچھ کرنا ہے، کوئی نوکری ہو تو بتانا، اس کا مستقبل کہیں خراب نہ ہو جائے؟
ایک دن میں نے دیکھا کہ وہ کسی سے میری بات کر رہے ہیں تو التجانہ لہجے میں ان کی آنکھیں بھی نم تھیں، لیکن میرے دیکھنے سے پہلے پہلے انہوں نے ضعیف آنکھیں صاف کر لیں!
اس دن مجھے احساس ہوا کہ ایک باپ اپنی تکلفیوں سے شاید کبھی نہیں روتا لیکن اولاد کی تکلیف یا غم اسے رولا دیتے ہیں۔
ابھی ایک تحریر دیکھی کہ آج فادر ڈے، منایا جا رہا ہے، پھر چند تصاویر سامنے آئیں کہ بچے، بچیاں اپنے والد کو محبت بھرے خط اور پھول دے رہے ہیں۔
مجھے محبت کے یہ انداز دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے لیکن اپنے اندر ایک ملال سا بھی ہے کہ میں اپنے والد کو نہ کبھی محبت بھرا خط لکھ سکا اور نہ ہی کبھی کوئی پھول دے سکا۔ اب ان کی یادیں ہیں اور محبت کا اظہار نہ کرنے کے پچھتاوے!
یہ تحریر ہر اس والد کے نام، جس کے دل میں اولاد کے لیے محبت مچلتی رہی لیکن وہ معاشرتی بندھنوں کی وجہ سے اظہار نہ کر سکا اور ہر اس بیٹی اور بیٹے کے نام، جو اپنے والد کو محبت بھرا خط نہ لکھ سکے۔