Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Imtiaz Ahmad
  4. Tanhai Ke Chand Roz

Tanhai Ke Chand Roz

تنہائی کے چند روز

مجھے یہ تو علم تھا کہ اس ڈینش جزیرے پر بہت ہی کم سیاح ہوتے ہیں لیکن اتنے کم ہوں گے یہ وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ "لانگے لینڈ جزیرہ" گریٹ بیلٹ اور خلیج کیل کے درمیان واقع ہے۔ اونچے نیچے ٹیلوں پر گندم کے کھیت تاحد نگاہ پھیلے ہوئے ہیں۔ سڑکیں کشادہ، سنسان اور صاف ہیں۔ ہوا کے جھونکے اس قدر خوشگوار احساس پیدا کرتے ہیں کہ روح تک مُسکرا اٹھتی ہے۔

سمندری ہوا کی ترو تازہ لہریں آتی ہیں تو پورے کے پورے کھیت جھومنا شروع ہو جاتے ہیں، گندم کی ڈالیاں آپس میں ایسے گلے ملتی ہیں جیسے بچھڑے ہوئے لوگ برسوں بعد ملے ہوں۔ جھومتے کھیتوں میں بے فکر اڑتی چڑیاں اور اٹکیلیاں کرتی تتلیاں مناظر کو مزید دلکش بنا دیتی ہیں۔ گزشتہ روز گندم کے کھیتوں کے درمیان چہل قدمی کرتے ہوئے اک دم ایک جانور اچھل کر قریب سے گزرا تو میں اچانک خوفزدہ ہو گیا۔ لیکن جب احساس ہوا کہ یہ ہرن ہے تو خوف جلد ہی خوشی میں بدل گیا۔

میں اُس وقت تک چھلانگیں مارتے ہوئے ہرن کو دیکھتا رہا، جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہو گیا۔ بعض اوقات اچانک نمودار ہونے والے مناظر کس قدر خوبصورت رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔ یہاں دن کو موسم گرم بھی ہو تو شام کو خُنکی ہو جاتی ہے۔ مقامی لوگ اس قدر دوستانہ ہیں کہ آپ کو شک ہونا شروع ہو جاتا ہے، سب ٹھیک تو ہے؟ اصل میں مجھے یورپ میں آج تک اتنے دوستانہ رویہ رکھنے والے لوگ کبھی نہیں ملے۔

نوجوان تو خال خال نظر آتے ہیں اور اگر کوئی عمر رسیدہ خاتون یا مرد مل جائے تو باتوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ ہماری رہائش لوہالز کی بندرگاہ کے قریب ہے۔ بندرگاہ پر ہر شام دو یا تین درجن کشتیاں آ کر رکتی ہیں۔ یہ یورپ کے امیر کبیر لوگ ہیں، اپنی لگثرری کشتیوں پر محو سفر ہوتے ہیں اور درمیان میں اس جزیرے پر مختصر قیام کرتے ہیں۔ ان کے رویے بھی انتہائی دوستانہ ہیں۔ ہر شام آتے جاتے ہیلو ہائے ہوتی ہے اور پھر تعارفی سیشنوں کا آغاز ہو جاتا ہے۔

مجھے ابھی تک یہاں کوئی ایک بھی دیسی یا غیر ملکی نظر نہیں آیا، سبھی سفید فام ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہر کوئی ہمیں ایک مرتبہ مڑ کر لازمی دیکھتا ہے۔ یہ گرمیوں کا سیزن ہے لیکن ساحل خالی پڑے ہوئے ہیں۔ میں یہی سوچ رہا ہوں کہ سردیوں میں تو یہاں کوئی ایک شخص بھی نظر نہیں آتا ہو گا۔ ڈوبتے ہوئے سورج کو تکتے رہنا میرا پسندیدہ ترین مشغلہ ہے۔ میں گھر پر بھی ہوں تو بالکون میں بیٹھے ہوئے چائے ہاتھ میں پکڑ کر ڈوبتے سورج کو دیکھنا مجھے بہت سکون دیتا ہے۔

یہاں بھی میری ہر شام ایسے ہی گزر رہی ہے۔ میں چائے کا کپ لیے ساحل پر آ جاتا ہوں۔ سورج دس بجے غروب ہو جاتا ہے لیکن افق پر سرخی رات بارہ بجے تک رہتی ہے۔ آتی جاتی لہروں کو دیکھنے اور سوچنے کے لیے وقت ہی وقت ہے۔ لہروں کے ساتھ ساتھ خود کو بہتا ہوا محسوس کرنا، کبھی اچانک گاؤں کی یاد کا آ جانا، کبھی ان لوگوں کے خیالات جو ہم سے بچھڑ چکے ہیں اور کبھی ان کے خیالات جن سے آپ کبھی مل نہیں سکتے۔

بے ترتیب خیالات کا ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ ہے اور پرُ ترنم لہریں روح کو تھپکیاں دیتی رہتی ہیں۔ جزیرے پر سورج اور بادلوں کے ساتھ مناظر لمحہ بہ لمحہ بدلتے ہیں۔ مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے میری برسوں کی تھکاوٹ اتر رہی ہو۔ یہاں آنے کے بعد میرا یہ احساس مزید بڑھتا جا رہا ہے کہ تنہائی اور فطرت سے قربت بہت بڑی نعمتیں ہیں، بہت بڑی! میں ہر سفر کے بعد ارادہ کرتا ہوں کہ واپس جا کر کوئی سفر نامہ لکھوں گا۔ اس مرتبہ بھی یہی سوچا ہے لیکن مجھے علم ہے کہ کئی دیگر سفرناموں کی طرح یہ بھی ادھورہ پڑا رہے گا۔

Check Also

Aag Lage Basti Mein, Hum Apni Masti Mein

By Rauf Klasra