Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Imtiaz Ahmad
  4. Selab Zadgan Ka Muqadma, Lipstick Ki Chamak Aur Branded Suit

Selab Zadgan Ka Muqadma, Lipstick Ki Chamak Aur Branded Suit

سیلاب زدگان کا مقدمہ، لپ اسٹک کی چمک اور برینڈڈ سوٹ

دو روز پہلے گاڑی میں بیٹھے بیٹھے ریڈیو آن کیا تو پہلی بار جرمن ریڈیو میں یہ سنا کہ پاکستان میں سیلاب اور ماحولیاتی تبدیلیوں نے شدید تباہی مچائی ہوئی ہے اور اس کے ساتھ ہی عطیات دینے کے لیے ایک نمبر اور ویب سائٹ کا بھی اعلان کیا گیا۔ پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور سیلاب کی خبریں تو درمیان میں کبھی کبھار آتی تھیں لیکن ابھی تک عطیات کے لیے اپیل کہیں بھی نہیں سنی تھی۔ جو چھوٹی موٹی اپیلیں کی گئی تھیں، وہ زیادہ تر یہاں بسنے والے پاکستانیوں، چند ایک این جی اوز اور نجی اداروں کی طرف سے تھیں۔

عمومی طور پر اگر کسی ملک میں اتنی بڑی آفت آئی ہو تو جرمن امدادی تنظیمیں اور میڈیا عطیات کی اپیل کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں لیکن اس مرتبہ صورتحال ماضی کی طرح نہیں دکھائی دی۔ اس مرتبہ ہوا یہ ہے کہ ہم دنیا کو آگاہ ہی نہیں کر پائے کہ پاکستان کے ساتھ کتنا بڑا سانحہ ہوا ہے؟ دنیا میں جو تھوڑی بہت حرکت ہوئی وہ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے دورہ پاکستان سے ہوئی اور اس سے بھی زیادہ دنیا نے انجلینا جولی کی اپیل کو سنا ہے۔

مجھے دو دن پہلے حیرانی بھی ہوئی کہ اب جا کر عطیات کی اپیل کیوں کی جا رہی ہے، اتنی تاخیر سے کیوں؟ لیکن یہ الجھن بھی دور ہو گئی، جب ریڈیو میں بتایا گیا کہ انجلینا جولی پاکستان گئی ہوئی ہیں اور انہوں نے بھی دنیا سے پاکستان کی مدد کرنے کا کہا ہے۔ میں گزشتہ چند ہفتوں سے انٹرنیشنل میڈیا مسلسل دیکھتا رہا ہوں کہ پاکستان کے حوالے سے کیسی کوریج دی جا رہی ہے؟

کوریج درمیانی تھی بلکہ مناسب اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انٹرنیشنل میڈیا نے پاکستان میں آنے والے سیلاب کو نظر انداز کیا ہے۔ لیکن جو چیز میری سمجھ میں نہیں آئی وہ پاکستانی نمائندوں کے زرق برق کرتے سوٹ بوٹ تھے۔ جس جس انٹرنیشنل میڈیا نے حکومتی نمائندوں کو لائیو لیا یا انٹرویوز کیے، کہیں سے لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ ملک آفت میں ہے یا یہ لیڈر دکھ اور قرب سے گزر رہے ہیں۔

فوٹیج میں ایک طرف ننگے جسموں والے بچے اور پھٹے دوپٹوں والی خواتین تھیں تو ان کا مقدمہ پیش کرنے والے پاکستانی سیاست دان اچانک برینڈڈ تھری پیس سوٹوں میں ٹی وی اسکرینوں پر نمودار ہوتے تھے۔ آپ کو یقین نہیں آتا تو آپ انٹرنیشنل میڈیا میں تمام حکومتی یا پاکستانی نمائندوں کی فوٹیج نکال کر دیکھ لیجیے۔ آپ وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی محترمہ شیری رحمان کے انٹرویوز دیکھ لیجیے۔ ہر انٹرویو میں ان کی لپ اسٹک کی چمک سیلاب زدگان کے آنسوؤں کا نمک تک کھا رہی تھی۔

ہمارے حکومتی نمائندوں کو یہ تو پتا ہے کہ ملکہ برطانیہ کی آخری رسومات میں سیاہ سوٹ پہن کر جانا ہے لیکن ہمیں یہ علم نہیں ہو سکا کہ سیلاب زدگان کی مدد کے لیے بین الاقوامی دنیا کو انٹرویو دینے ہیں تو برینڈڈ تھری پیس سوٹ، چمکتی ٹائیاں اور دلہن جیسا میک اپ نہیں کرنا۔ دوسری طرف آپ پاکستان کا مقدمہ دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے آنے والے اقوام متحدہ کے جنرل سیکریٹری انٹونیو گوٹیرش اور انجلینا جولی کا لباس دیکھیں، آپ کو پتا چلے گا کہ میصبت کے مارے لوگوں کا مقدمہ کیسے پیش کرنا ہے۔

آپ کو دھیمے لہجے، آنکھوں میں نمی، چہرے پر ہمدردی اور مدھم رنگ والے سادہ لباس نظر آئیں گے۔ آپ کو پتا چلتا ہے کہ کوئی دکھ بانٹنے آیا ہے۔ میرے خیال سے ہم بحیثیت قوم سیلاب زدگان کا مقدمہ دنیا کے سامنے رکھنے میں ناکام ہوئے ہیں۔ ہمارے سیاستدان ناکام ہوئے ہیں، حکومت ناکام ہوئی ہے، موجودہ اپوزیشن ناکام ہوئی ہے، ہمارا میڈیا ناکام ہوا ہے، ہمارے تجزیہ کار اور ہمارے کروڑوں فالورز رکھنے والے ٹک ٹاکرز ناکام ہوئے ہیں۔

اتنی بڑی آفت ہو تو ہر ملک کے ٹک ٹاکرز کی دنیا میں ہل چل مچی ہوتی ہے۔ اتنا بڑا المیہ ہو تو ملکی اپوزیشن چند دن سیاست میں وقفہ کر لیتی ہے۔ اتنا بڑا سانحہ ہو تو حکومت اپوزیشن کو ٹھکانے لگانے کے منصوبے چند دن ترک کر لیتی ہے لیکن پاکستان میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ جب ہمیں خود ہی نہیں پروا تو دنیا کو ہماری پروا کیوں ہو گی؟ جو مرتا ہے اسے مرنے دیں۔

شکریہ ادا کریں اقوام متحدہ کے اداروں اور انجلینا جولی کا، جو دن رات سیلاب زدگان کے لیے اپیلیں کر رہے ہیں اور آواز جرمن ریڈیو تک پہنچ رہی ہے۔ ورنہ ہمارے بھیک مانگنے کے انداز بھی ایسے شاہانہ ہیں، جنہیں دیکھ کر ہر کوئی منہ موڑ لیتا ہے اور سخی جیب میں ڈالا گیا ہاتھ جیب میں ہی رکھتا ہے۔

Check Also

Lathi Se Mulk Nahi Chalte

By Imtiaz Ahmad