Sarhad Paar Se Kisi Ne Salam Bheja Hai
سرحد پار سے کسی نے سلام بھیجا ہے

آپ گزشتہ بیس برسوں سے اپنے ملک سے ہزاروں کلومیٹر دور بیٹھے ہوئے ہیں لیکن دل اب بھی اسی کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ ایسا صرف میرا حال نہیں ہے، تقریباََ ہر اس پاکستانی کا حال ہے، جو بیرون ملک بیٹھا ہوا ہے۔ عوام کے دکھ دوسرے ہیں اور پالیسی سازوں کے مقاصد الگ ہیں۔
آج جنگ بندی کی بعد "شکر ہے" کے سب سے پہلے، جو میسج آئے، ان میں سے چار بھارتی دوستوں کے ہیں۔ ایک دہلی سے آیا ہے، دو ہندی سروس سے ہیں اور ایک خاتون دوست "انڈین انفارمیشن سروس" میں آفیسر ہیں۔ ایک دوست نے تو یہ بھی کہا ہے کہ یار "اپنے دوستوں کو کہنا کہ ہم بھی جنگ نہیں چاہتے، سب کو سلام دینا"۔
پاکستان میں بھی جنگ بندی کی خوشی دیدنی ہے، قریبی دوست سکھ کا سانس لے رہے ہیں، جن دوستوں کا تعلق فوجی گھرانوں سے ہے، وہ بھی ہاتھ جوڑے شکر ادا کر رہے ہیں۔
جنگ میں ملک جیتتے ہیں، اکثر لوگ ہارتے ہیں۔ دوست احباب خوش ہیں لیکن میرے دل میں رہ رہ کر خیال آ رہا ہے، بارڈر پر، جو لوگ مارے گئے ہیں، جو ہمارے فوجی نوجوان قربان ہوئے ہیں، ان کے اہلخانہ ابھی کیا سوچ رہے ہوں گے، ان کے جذبات اس وقت کیا ہوں گے؟
ان کے لیے یہ جیت کوئی معنی رکھے گی؟ کیا اس خون خرابے سے بچا جا سکتا تھا۔
ایک خیال یہ بھی آتا ہے کہ شکر ہے، ہم بہت بڑی تباہی سے بچ گئے۔ یہ "فتح" کا جشن ہزاروں یا لاکھوں ہلاکتوں کے بعد ایسے ہی منایا جانا تھا، شکر ہے زندگیاں بچ گئی ہیں، شکر ہے بارڈر کے دونوں طرف زندگیاں بچ گئی ہیں۔
میں میڈیا میں ہوں، جب بھی ایسی کوئی خبر آتی ہے کہ سرحد پر کوئی فوجی یا کوئی ایک سویلین مارا گیا ہے، تو ایسی خبر کو ایک لائن میں ہی نمٹا دیا جاتا ہے۔ ہمارے لیے یہ فقط ایک نمبر ہوتا ہے۔
میں کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ پالیسی سازوں نے کبھی اپنے ڈرائینگ روم میں بیٹھ کر یہ سوچا ہوگا کہ ایک شخص ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنے خاندان سے جدا ہوگیا ہے؟
ایک خاندان والے اپنے بیٹے، بیٹی یا والد کو کبھی دوبارہ نہیں دیکھ پائیں گے۔
ہلاک ہونے والے فوجی اہلکار کے بچے ساری زندگی اپنے باپ کے لمس تک کو محسوس نہیں کر پائیں گے۔ بیوی شاید ساری زندگی مجبوریوں میں گزار دے، غربت کی چکی پیستی گزار دے۔ اس والدہ کا جگر کیسے پھٹتا ہوگا، جس کو جب اپنے جوان بیٹے کی وفات کی خبر ملتی ہوگی۔
ہم اور آپ ملک کی "فتح کا جشن" منا رہے ہیں۔ شاید اس وقت بھارت میں بھی یہی سماں ہو لیکن اس جشن کے دوران فقط ایک منٹ کے لیے رکیے! سوچیے کہ وہ 31 خاندان اس وقت کس حال میں ہوں گے، جن کے پیارے اس تنازع میں مارے گئے ہیں۔
وہ تقریباََ 60 افراد ساری زندگی کیسے گزاریں گے، جو زخمی ہوئے ہیں اور ان میں سے شاید کچھ زندگی بھر کے لیے اپاہج ہو جائیں گے۔
سرحد کے اس طرف بھی اسی طرح کی صورت حال ہے۔ کیا پالیسی ساز ان خاندانوں کے بارے میں سوچتے ہوں گے؟ ان کی نظر یتم ہونے والی چھوٹی چھوٹی بچیوں کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسووں پر پڑتی ہوگی؟
اپنے بچوں کو یتیم دیکھ کر رونے والی ایک بیوا کئی سسکیوں کا درد کوئی سمجھتا ہوگا؟
مجھے لگتا ہے پالیسی ساز بھی ہماری اکثریت کی طرح 31 کو ایک ہندسہ سمجھ کر آگے گزر جاتے ہوں گے۔ خیر یہ الگ بحث ہے۔ لیکن شکر ہے کہ ہم ایک بہت بڑی تباہی سے بچ گئے ہیں۔ سرحد کے پار بیٹھے میرے کچھ دوست بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ شکر ہے ہم مزید تباہی سے بچ گئے ہیں۔
آج کی جنگ بندی ان دوستوں کے نام، جو ہمیشہ امن کے لیے کوشاں رہتے ہیں، ان خاندانوں کے نام، جو اپنے پیاروں کی جانیں گنوا بیٹھے ہیں، ان ماوں کے نام، جن کے بیٹے یا بیٹیاں اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔