Peghambaron Ke Saron Par Chaun Karne Walay Qabeelay Ka Qatal
پیغمبروں کے سروں پر چھاوں کرنے والے قبیلے کا قتل
نوے سالہ بوڑھے باپ کے کندے جھکے ہوئے تھے۔ اس کے جوان بیٹے اور بیٹیاں اس کے ساتھ ہی کھڑے تھے۔ اندازہ تھا کہ موت قریب ہے لیکن باپ ہاتھ اٹھائے دعا کر رہا تھا کہ اے خدا قاتل نرم دل ہوں تو اچھا ہے۔ نجانے کیوں اسے امید تھی کہ صرف اسے ہی قتل کیا جائے گا اور اس کی اولاد کی زندگیاں بخش دی جائیں گی۔ باپ کی موت سامنے تھی لیکن اولاد کچھ بھی کرنے سے قاصر تھی۔ یہ عجیب منظر تھا نہ تو یہ موت سے بھاگ سکتے تھے اور نہ ہی حملہ آوروں سے لڑ سکتے تھے۔
بوڑھے باپ نے قدموں میں بیٹھے ہوئے بڑے بیٹے سے کہا میری بات غور سے سنو!
میرے قتل کے بعد بھی تمہارا فرض بنتا ہے کہ تم جب تک زندہ رہو حملہ آوروں کی خدمت کرتے رہو۔ تمہارا جب تک سانس چلتا رہے، تم ان کے سانس کی حفاظت کرتے رہو۔ ہم ان کے خاندانی غلام ہیں۔ ہمیں احتجاج کرنے کا حق نہیں ہے، ہمیں انہیں قتل کرنے کا حق نہیں ہے، ہمیں بھاگنے کا حق نہیں ہے، ہمارے خاندان میں ماتم کرنا جرم ہے، سینہ کوبی پر پابندی ہے، آنسو بہانے پر پہرے ہیں۔ ہماری سرشت میں ان کے سامنے سر جھکانا لکھ دیا گیا ہے۔ ہمیں ان کے سامنے بولنے کی اجازت نہیں ہے، اف کرنے کی اجازت نہیں ہے، آہ بھرنے پر پابندی ہے۔ اور اگر ہم آہیں بھریں بھی تو ان کے آہنی کانوں تک نہیں پہنچیں گی۔
ہمارا کام بس اور بس سر دست ان کی زندگی آسان بنانا ہے، ان کی اکھڑتی ہوئی سانسوں میں پیوند لگانا ہے۔
باپ کے پاوں سے لپٹے ہوئے بیٹے نے کہا کہ یہ کب تک ہمیں یونہی قتل کرتے رہیں گے؟ ان کو کب سمجھ آئے گی کہ ہم ان کے دشمن نہیں خدمت گار ہیں؟ ان کو کب یہ ادراک ہوگا کہ ہماری زندگیوں کا خاتمہ ان کی اپنی زندگیوں کا خاتمہ ہے، ہمارے بچوں کا قتل ان کے اپنے بچوں کا قتل ہے، کب ہوش آئے گا، کب آنکھیں کھلیں گی ان کی؟
بوڑھے باپ کی چھوٹی بیٹی بھی خوفزدہ ہو کر ساتھ ہی کھڑی تھی۔
اس کے سامنے تو اپنے خاندان کا یہ پہلا قتل تھا۔ بیٹی نے سہمے ہوئے لہجے میں آہستہ سے پوچھا کہ ابو جان یہ آپ کو کہاں لے جائیں گے؟ یہ کیوں نہیں چاہتے کہ ہمارا خاندان ان کی ایسے ہی خدمت کرتا رہے؟
بوڑھے باپ نے آسمان کی طرف گاڑھی ہوئی لاچار اور افسردہ نظریں بے بس بیٹی کے معصوم چہرے کی طرف کرتے ہوئے گہری سانس لی اور کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگیا۔ یہ موت کو محسوس کر لینے والا مراقبہ تھا۔ چند لمحوں بعد ایک نحیف، لڑکھڑاتی اور کانپتی ہوئی آواز نکلی۔ یہ آواز نہیں سسکی تھی، جدائی کے غم میں لپٹی ہوئی ہچکی تھی۔
بیٹی پتا نہیں میرا کیا کریں؟
لیکن میں نے اپنے باپ سے سنا تھا کہ ہماری قوم کے کچھ لوگوں کی یہ ہڈیاں جدا جدا کرکے انہیں جلا دیتے ہیں، کچھ حسین اور توانا لڑکوں اور لڑکیوں کی لاشوں کو آگے سے آگے کہیں بیچ دیا جاتا ہے۔ جہاں لے جایا جاتا ہے وہاں سے آج تک کوئی خبر ہم تک نہیں پہنچی۔
تمہارے دادا بتاتے تھے کہ ایک مرتبہ ان کی پوری کی پوری بستی کو راتوں رات تاراج کر دیا گیا تھا، قتل عام تھا اور اس قتل عام میں کسی کی جان بخشی نہیں ہوئی تھی، چھوٹے چھوٹے بچوں کے سر تن سے جدا کر دیے گئے تھے، حاملہ خواتین کو قتل کر دیا گیا تھا۔ جس کے بعد کئی برسوں تک کسی ایک بھی پرندے نے اس اجڑی ہوئی بستی کی طرف رخ نہیں کیا تھا، پھر کبھی کوئی ایک بھی بلبل نہیں چہکی تھی، پھر کبھی کوئی ایک بھی طوطا مینا کی محبت پروان نہیں چڑھی تھی، پھر وہاں کوئی ایک بھی بارش کا قطرہ نہیں ٹپکا تھا، پھر کبھی وہاں کسی ایک کوئل کی بھی آواز سنائی نہیں دی تھی۔ آج بھی دنیا والے اس بستی کو صحرا کے نام سے جانتے ہیں۔
اس قتل عام میں بچ جانے والے تمہارے دادا جی کی عمر کوئی پانچ چھ برس کی تھی۔ تمہارے دادا بہت نیک تھے، کچھ لوگ تو کہتے ہیں کہ ہمارے اباو اجداد کو پیغمبروں کی صبحت حاصل رہی ہے۔ ہمارا شجرہ نصب اس خاندان غلاماں سے ملتا ہے، جس کے غلام یہودیوں، مسیحیوں اور پھر مسلمانوں کے پیغمبر کے سر پر بھی چھاوں کیے کھڑے رہتے تھے۔
ایک چاندنی رات میں شمال کی طرف سے آنے والے صدیوں کے مسافر نے مجھے بڑی رازداری سے بتایا تھا کہ تمہارے دادا کو اتنی طویل زندگی بھی ایک پیغمر کی دعا سے ہی ملی تھی۔ تمہارے دادا کو پرندوں کی زبان بھی آتی تھی اور انہوں نے ایک ہُد ہُد کی زبانی سنا تھا کہ حملہ آور ہماری لاشوں کو کاٹ تراش کے نئی شکلیں فراہم کرتے ہیں، ہماری پرانی شکلوں کو مسخ کر دیتے ہیں، ہنوط کر لیتے ہیں اور ہماری لاشوں کو اپنے کمروں میں سجا لیتے ہیں۔
مجھے تمہارے دادا نے ان حملہ آورں کی خدمت کرنے کی نصحیت کی تھی اور آج میں تمہیں بھی یہی نصحیت کر رہا ہوں، مرتے ہوئے بھی دوسرے کی خیر چاہو، یہی پیغمبری ہے، ہمیں یہی سکھایا گیا ہے۔
میرے قتل کے باوجود، تمہارے قتل کے باوجود، تمہاری آل اولاد اور آئندہ نسلوں کے قتل کے باوجو تم نے اپنے قاتلوں کو سانس مہیا کرنے ہیں، یہاں تک کہ ہماری قوم کا آخری فرد بھی اس صفحہ ہستی سے مٹ جائے۔
چھوٹی بیٹی نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا کہ ابو جان یہ کیسا انصاف ہے؟ ہم ان کو زندگی کا سامان مہیا کریں، ہم نسل در نسل ان کی خدمت کریں، ہم ان کے حقے بھریں، ہم ان کو پھل بہم پہنچائیں، ہم انہیں سُکھ کے سانس فراہم کریں، ہم تپتی دھوپ میں ان کے پیغمبروں کے سروں پر سایہ کریں، ہم انہیں ٹھنڈی ہواوں کے جھونکے دیں، ہم اپنے آنکھیں نچوڑ کے انہیں خوشبوئیں دیں، ہم اپنے جسم پر خار اور ان کے ہاتھوں پر گلاب رکھیں، ہم ان کی طرف جاتے ہوئے سیلابوں کے سامنے بند باندھ دیں اور یہ ہمیں ہی قتل کریں! یہ کہاں کا انصاف ہے؟ اگر ہم نے ان کے ہاتھوں قتل ہی ہونا ہے تو ہم کیوں ان کے لیے یہ سب کچھ کریں؟
بوڑھے باپ نے بیٹی کو گلے لگاتے ہوئے سمجھانے کی کوشش کی۔
بیٹی یہ ناسمجھ ہیں، ان کے پیغمبروں، نیک دل لوگوں، انسیت پروروں اور محبت بانٹنے والوں نے تو انہیں یہی نصحیت کی تھی کہ ہماری حفاظت کرنی ہے لیکن یہ ان کی بھی حکم عدولی کرتے ہیں، انہیں علم ہی نہیں کہ یہ ہماری نہیں اپنی سانسوں کو ختم کر رہے ہیں، یہ ہمارے نہیں اپنے گلوں کو کاٹ رہے ہیں، یہ اپنی سانسوں کے پیوند ادھیڑ رہے ہیں۔
کئی عشروں کی سرد اور گرم ہواوں کے تھپیڑے کھانے والے، کئی سرد اور گرم راتوں کے رازوں کا امین بوڑھا باپ اپنی اولاد کو ابھی اپنے پاکیزہ شجرہ نصب اور پیغمبروں کی کہانیاں سنا ہی رہا تھا کہ ایک حملہ آور اونچی آواز میں چلایا، اس بڑے درخت کے ساتھ کھڑے یہ چھوٹے درخت کے تنے بھی کاٹ دو، فرنیچر اچھا بنے گا، چار پیسے زیادہ مل جائیں گے۔
بوڑھا درخت ابھی یہ بیان نہیں کر پایا تھا کہ کس کس پیغمبر نے اس کے خاندان کے درختوں سے ٹیک لگائی تھی اور اس خاندان کا کونسا درخت کس کی جدائی میں رویا تھا۔ پیغمبروں کے سروں پر چھاوں کرنے والا درختوں کا یہ خاندان اپنا پیغام اگلی نسل تک پہنچانے سے پہلے ہی قتل ہو چکا تھا۔ اس مرتبہ قاتلوں نے بچوں کو بھی زندہ نہیں چھوڑا تھا۔