Log Khush Nahi Hain
لوگ خوش نہیں ہیں
یہ بات پہلی مرتبہ محسوس نہیں ہوئی ہر مرتبہ یہی لگتا ہے۔ خطہ ایک سا ہے، بھارت میں بھی شاید ایسا ہی ہو لیکن ادھر لاہور ائیرپورٹ پر اترتے ہی آپ محسوس کرتے ہیں کہ یہاں کے لوگ خوش نہیں ہیں۔
پہلے سوچتا تھا کہ میں اکثر صبح سویرے لینڈ کرتا ہوں، اس وجہ سے ایئرپورٹ سے گاوں پہنچنے تک سب کے چہرے مرجھائے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن یہ بات بھی غلط ہے۔ کسی وقت، کسی سے بھی ملو، سو میں سے پچانوے فیصد لوگ ناخوش ہیں۔ پیسے والا بھی خوش نہیں ہے اور جس کے پاس نہیں ہے وہ بھی خوش نہیں ہے۔ ایک عجیب ریس ہے!
قہقہے اور مسکراہٹیں ناپید ہوتی جا رہی ہیں۔ بازار میں، دکانوں پر ہنس کر شکریہ کہنے والا کہیں نہیں ملتا۔
ائیرپورٹ پر ہی اترتے ہی آپ کو بڑی توندوں پر چھوٹی شرٹوں والے لوگ نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں، کسی کے لباس میں نفاست دور دور تک نہیں نظر آتی۔ ورزش نہیں ہے، فٹنس نہیں ہے، بے ترتیب کھانے ہیں شاید یا کیا ہے، لوگوں کے جسم بے ڈھنگے ہوتے جا رہے ہیں۔ جو کمزور ہیں، وہ بہت ہی کمزور ہیں۔
اتنی گرمی میں بھی لوگ خوشبووں کا استعمال کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔ چہروں پر پہلے ہی سوچیں ہیں یا کیا ہیں، رنگ زرد ہیں، نوجوانوں تک کی آنکھیں نچڑی ہوئی ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے سبھی یرقان میں مبتلا ہوں۔
لاہور کی ہوا میں سانس لیں تو ہلکی سمیل آتی ہے۔ فوگ یا آلودگی اتنی ہوتی ہے کہ جہاز سے ہی منظر آلودہ اور سرمئی سا لگنے لگتا ہے۔
ایئرپورٹ سے نکلتے پیں تو ہر طرف کنکریٹ اور سڑکیں اور سڑکوں کے کناروں پر ہوا کے ساتھ اڑتے ہوئے آوارہ شاپر ملتے ہیں، پھول، درخت، گرینری سب غائب ہیں۔
یہ پاکستان لینڈ کرتے ہوئے پہلا امپریشن ملتا ہے۔
ساری دنیا تو نہیں گھومی لیکن پچیس تیس ممالک کے ساتھ موازنہ کر سکتا ہوں۔ یہاں تک کے سری لنکا جیسے ملک کے ایئرپورٹ پر بھی اتریں تو تازگی کا احساس ملتا ہے، لوگوں کے چہروں سے مسکراہٹ ختم نہیں ہوتی۔ ہوا صاف ملتی ہے، کھانوں میں ملاوٹ نہیں ہے۔
یقین کریں یہاں پاکستان میں یہ تازگی کہیں ختم ہوتی جا رہی ہے۔ کوئی بھی شخص مطمئن نظر نہیں آتا، جن کے پاس سب کچھ ہے، وہ بھی بے چین ہیں۔ پیسے گنتے گنتے لوگ ختم ہو رہے ہیں، زندگی انجوائے کرنے کا فن ختم ہو رہا ہے، یہاں کچھ نہ کچھ گڑ بڑ ہے، یہاں زندگی ہار رہی ہے۔