Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Imtiaz Ahmad
  4. Kachi Chat, Tooti Chooriyan

Kachi Chat, Tooti Chooriyan

کچی چھت، ٹوٹی چوڑیاں

وہ سیڑھیوں پر کھڑی تھی لیکن کمر دیوار کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔ کبھی بالیاں ہلتی تھیں، کبھی بے پروائی سے رنگ دار پراندہ سینے پر گرتا اور کبھی سر سے نیچے کھسکا ہوا دوپٹہ بڑی نفاست سے مانگ زدہ بالوں پر اٹک جاتا۔ وہ تیسری یا چوتھی مرتبہ اسی جگہ سیڑھیوں کے عین درمیان آ کر کھڑی ہوئی تھی۔ ڈھول، باجوں اور شہنائی کی آوازیں آہستہ آہستہ آہستہ تیز ہوتی جا رہی تھیں۔

گھر کے آدھے صحن میں اینٹیں لگی ہوئی تھیں اور آدھا ابھی کچا تھا۔ کچے صحن کے عین دائیں جانب انار اور بکائن بانہوں میں بانہیں ڈالے کھڑے تھے۔ صحن کے اس حصے اور دیواروں کی بڑے اچھے انداز سے لپائی کی گئی تھی۔ ایک کونے میں رکھے ہوئے تین چولہوں میں ابھی تک اوپلے سلگ رہے تھے۔ صبح سے کئی مرتبہ انہی چولہوں سے کوئلے وغیرہ نکال کر حقے تازہ کیے جا چکے تھے، انہی چولہوں پر چائے بن رہی تھی اور مائیں انہی چولہوں پر گرم ہونے والا دودھ اپنے چھوٹے بچوں کو پلا رہی تھیں۔

لیکن اب یہاں رش ٹوٹ چکا تھا، ناشتے کے ساتھ چائے، مٹھائی اور رس کھانے کا دور ختم ہو چکا تھا، حقے تازہ کر کے بارات والی حویلی میں لے جائے جا چکے تھے۔ چاروں طرف رنگ برنگے اور زرق برق کپڑے آنکھوں کو خیرہ کرتے جا رہے تھے۔ کئی چہرے دلربا سے تھے لیکن بعض چہروں پر میک اپ کے نام پر جیسے کلی کر دی گئی ہو، بعض آنکھوں میں سرمہ نیچے تک پھیلا ہوا تھا، بعض ہونٹوں کی تیز سرخی دانتوں پر داغ لگا رہی تھی۔

ہر کوئی جلدی میں تھا۔ لڑکیاں، بچے، بچیاں اور عورتیں ایک دوسرے کو بار بار بتا رہی تھے، بارات آ گئی ہے، بارات آ گئی ہے۔ بارات کو کچھ فاصلے پر وہیں اتار لیا گیا تھا، جہاں سے گاؤں کا مرکزی راستہ شروع ہوتا تھا اور باراتی کھیتوں کے درمیان آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ گھر بیٹھے بیٹھے شرلیوں اور پٹاخوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔

مرد پہلے ہی بارات کے استقبال کے لیے جا چکے تھے۔ جن لڑکیوں، بچوں اور خواتین نے گلاب اور گوٹے کے پھول پھینکنے تھے وہ سبھی بھی حویلی کے ساتھ والے گھر کی چھت پر موجود تھے۔ پیچھے رہ جانے والی خواتین، چند ایک بچے اور مرد جلدی سے حویلی کے اس حصے میں پہنچنے کی کوشش میں تھے، جہاں کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ ایک شامیانے کی مدد سے مردوں اور خواتین کے حصے کو الگ الگ کر دیا گیا تھا۔

میں بھی صحن میں رکھی چارپائی سے اٹھ کر حویلی کی طرف جانے لگا تھا کہ میری نظر دوبارہ چپکے سے سڑھیوں کی طرف اٹھی۔ میری نگاہ پہلی مرتبہ سیڑھیوں کا طواف کر کے نہیں آئی تھی، ہر چند لمحوں بعد اسی طرف ہی اٹھ رہی تھی۔ سلیقے سے لگا سرمہ، موٹی موٹی آنکھیں، سانولہ رنگ، پاؤں میں کھسہ، ہونٹوں پر مسکراہٹ اور بات بات پر بلاوجہ قہقہے۔ سیڑھیوں پر چڑھنے اور اترنے کا یہ بے تکلفانہ سا کھیل گزشتہ دس پندرہ منٹ سے جاری تھا۔

جب آخری آخری لوگ حویلی کی طرف جا رہے تھے تو اس نے انتہائی محتاط انداز میں اپنے کمان جیسے ابرو سے اوپر کی طرف اشارہ کیا۔ میں اشارے کو سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ وہ ہرن جیسی چھلانگیں لگاتے ہوئے چھت پر جا چکی تھی۔ کچی چھت کے جالی دار بنیرے اتنے اونچے تو نہیں تھے لیکن بیٹھا ہوا آدمی نظر بھی نہیں آتا تھا۔ ایک ٹوٹی چارپائی کے ساتھ ایک چوکی رکھی ہوئی تھی لیکن اس نے مڑ کر ہی نہ دیکھا، اس کا رخ حویلی کی طرف ہی رہا، جو کھیتوں کے عین ساتھ بنی ہوئی تھی۔

اس نے چند لمحے پہلے اشارہ کرنے کے بعد یہ بھی نہیں دیکھا تھا کہ میں سمجھ پایا ہوں کہ نہیں لیکن اسے یقین تھا کہ میں چھت پر ضرور آؤں گا۔ میرے قدموں کی چاپ سے بھی اس نے مڑ کر نہیں دیکھا، اس کا منہ دور تک پھیلے ہوئے کھیتوں کی طرف تھا، حویلی کی طرف، رنگ برنگا پراندہ اسی کی کمر کے عین درمیان کسی پنڈولم کی طرح جھول رہا تھا۔

میں نے تمہیں ایک تحفہ دینا ہے۔ اس نے میری طرف دیکھے بغیر ہی کہا، جیسے وہ ہوا سے بات کر رہی ہو۔

تحفہ؟ وہ کیوں؟

بس ویسے ہی، میر دل کیا اور میں نے منگوایا ہے، صبح ہی بس کا کرایہ دے کر ایک چھوٹے لڑکے کو شہر بھیج دیا تھا۔ مجھے پتا چلا ہے کہ تم لوگ آج ہی واپس چلے جاؤ گے۔

اس نے مڑ کر ہاتھ بڑھایا تو یہ ایک پین تھا۔

مجھے لگا تمہارے لیے یہی تحفہ ٹھیک رہے گا۔ سنا ہے جناب کتابیں پڑھتے ہیں، شاعری کی کتابیں بھی پڑھتے ہیں۔

میں ٹوٹی ہوئی چارپائی پر بیٹھا مسکراتا رہا اور اس کی طرف دیکھتا رہا۔ وہ بڑے سیلقے سے اپنے کپڑے سمیٹ کر چوکی پر بیٹھی گئی۔

تم مہندی والی رات اتنی دیر سے کیوں آئے تھے؟ ہم تو یہاں ایک دن پہلے ہی پہنچ گئے تھے۔

اس کی وہی نیم خوابیدہ آنکھیں تھیں، سوال کرنے کے بعد وہی مسکرا کر دیکھتے رہنے کی عادت اور پھر خامشی کی جھیل میں خود ہی ایک نیا سوال پھینک کر حیرانی کی پھیلتی ہوئی لہروں کو دیکھتے رہنے کا انداز تھا۔

اچھا آج رک جاؤ ناں۔

نہیں سبھی گھر والے واپس جائیں گے تو مجھے بھی ساتھ جانا ہے۔

تم ٹھہر جاؤ کسی بہانے سے، تمہیں تو کوئی روکے گا بھی نہیں، تم نے کیا کرنا ہے آج ہی واپس جا کر؟

نہیں ابو نے کہا ہے سبھی واپس جائیں گے، کوئی بھی نہیں رکے گا۔

اچھا یہ بتاؤ ہمارے پاس کب آو گے؟ ہمارا گاؤں یہاں سے کوئی زیادہ دور تو نہیں؟

پتا نہیں، جب کسی کی شادی ہوگی تو شاید ہم بھی آ جائیں گے، میں نے معنی خیز نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور مسکرا دیا۔

اچھا یہ بتاؤ کہ آخری فلم کونسی دیکھی تھی؟

کوئی خاص یاد نہیں لیکن کئی مہینے پہلے دیکھی تھی۔

نام تو بتائیں! جناب نے کونسی دیکھی تھی؟

"ہم دل دے چکے صنم"

واقعی؟ کیا میں اسے سچ سمجھوں؟

اس نے میرا فقرہ مکمل نہیں ہونے دیا تھا اور میں اس کے ذومعنی فقرے پر مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔

یہ فلم کا نام بتایا ہے، یہ فلم ہے۔ میری طرف سے ہلکا سا قہقہہ بلند ہوا لیکن دوسری طرف سے ایک چوڑی ٹوٹنے کی آواز آئی۔

تو تم آج نہیں رکنے والے کسی قیمت پر بھی؟

میں تو رکنا چاہتا ہوں لیکن واپس جانا ہے، سب گھر والوں نے جانا ہے۔

شہنائیوں اور ڈھول کی آوازیں تیز ہوتی جا رہی تھیں۔ ہماری بے ترتیب اور نامکمل گفتگو کے درمیان ذومعنی وقفے اور فقرے بڑھتے جا رہے تھے۔ میرے پاس اس کے گاؤں جانے کا کوئی واضح جواز نہیں تھا۔ میرے پاس اس شادی والے گھر مزید ایک دن رکنے کا کوئی بہانہ نہیں تھا۔ اس کی کانچ کی چوڑیاں وقفے وقفے سے تڑخ کی آواز سے ٹوٹ رہی تھیں۔ میں ہر آواز کے ساتھ اس کی ٹوٹنے والی چوڑی اور سانولی کلائیوں کی طرف دیکھتا لیکن اس کی روشن آنکھیں فقط میرے چہرے پر جمی ہوئی تھیں۔

نیچے سے کسی نے زور سے اس کا نام پکارا تو وہ ویسی ہی تیزی سے نیچے کی طرف بھاگی جیسے اوپر آئی تھی۔ لیکن اس جلدی میں اس نے کوئی اشارہ نہیں کیا تھا، اس کے ابرو ساکت ہی رہے تھے۔ ڈھول کی آواز تیز ہو رہی تھی، شہنائی کی تانیں بلند ہوتی جا رہی تھیں، حویلی کے سامنے روپے روپے کے نوٹ پھینکے جا رہے تھے، بچے اور جوان ایک دوسرے کو دھکے دے کر پیسے لوٹ رہے تھے۔

کچی چھت پر بوسیدہ سی چارپائی کے پاس معصوم جذبے بکھرے پڑے تھے، رنگ برنگی چوڑیاں ٹوٹی پڑی تھیں۔

میں نے بارات پر نچھاور کیے جانے والے نوٹوں کی طرح دو چار ٹوٹی ہوئی چوڑیاں جمع کیں اور جیب میں رکھ لیں۔

Check Also

Aag Lage Basti Mein, Hum Apni Masti Mein

By Rauf Klasra