Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Imtiaz Ahmad
  4. Jab Hum Apna Zawal Khud Mangte Hain

Jab Hum Apna Zawal Khud Mangte Hain

جب ہم اپنا زوال خود مانگتے ہیں

میں فرسٹ ایئر کر چکا تھا لیکن سیکنڈ ایئر کی فیس کے لیے پیسے نہیں تھے۔ میں کئی مہینوں سے گھر پر پڑا تھا۔ سبھی بہن بھائی ابھی اپنی پڑھائی کے اختتام پر تھے، اخراجات زیادہ تھے اور گھر کا سارا بوجھ صرف ابو جی کے کندھوں پر تھا۔ میں سارا سارا دن جگری یاروں وکی اور عامر کے ساتھ گھومتا رہتا تھا۔ رات کو دیر سے گھر آتا تا کہ ابو جی سے سامنا نہ ہو۔

ابو جی جب بھی دیکھتے، کہتے کوئی کام وام کر لو، کبھی سختی سے کہتے اور کبھی نرمی سے۔ کبھی کسی کے لڑکے کی کامیابی کی مثال دیتے، کبھی کسی کے بیٹے کی اور کبھی کسی انڈے بیچنے والے لڑکے کے ایم اے کرنے کے قصے شروع ہو جاتے۔

یہ باتیں سن سن کر میں دل ہی دل میں کڑتا رہتا تھا۔ حالات کے ہاتھوں ناکام اور مایوسی کے مارے لوگوں کو ویسے ہی کامیاب لوگوں کی کہانیاں سر پر ہتھوڑے بن کر لگتی ہیں۔

ایک دو مرتبہ میں نے دبے دبے لفظوں سے امی جی سے بھی کہا کہ مجھے خدارا کسی کے بچے کی کامیابی کے طعنے نہ دیا کریں۔ ابو جی کے سامنے جواب دینے کی جرات نہیں تھی لیکن میں دل ہی دل میں یہ ضرور کہتا کہ اب انڈے بیچ کر پڑھائی نہیں ہو سکتی وہ آپ کا زمانہ ہوگا، اب نہیں رہا۔

میں ٹائم گزاری کے لیے ساری ساری رات ناول پڑتا رہتا، کھیتوں میں بیٹھ کر یادوں کی بارات، راجہ گدھ، عشق کا عین، شہاب نامہ، علی پور کا ایلی، پطرس بخاری، کرنل محمد خان اور شیفق الرحمان کو پڑھتا رہتا اور باقی سارا دن یاروں کے ساتھ آوارہ گردی۔

مجھے یقین ہو چکا تھا کہ میری قسمت میں نوشہرہ ورکاں کی گلیاں لکھی جا چکی ہیں اور شاید یہی کہیں کوئی کام وام کرنا ہے۔

انہی دنوں جنگ اخبار پر کے آر ایل (قدیر ریسرچ لیبارٹریز) کی طرف سے اپرینٹس شپ کے لیے اشتہار آیا۔ میں نے اپلائی کر دیا اور انہوں نے انٹری ٹیسٹ کے لیے لاہور کے آراء بازار بلا لیا۔

میں انٹری ٹیسٹ دے کر آیا تو مجھے اپنے مایوس اور تاریک مستقبل میں ایک روشنی کی کرن نظر آئی، مجھے ایسا لگا کہ مجھے زندگی کا راستہ مل گیا ہو اور اب میرے تاریک دن بس ختم ہونے والے ہیں۔

مجھے ایک مرتبہ پھر گاؤں خوبصورت لگنے لگا اور اس کے رہنے والے بھی۔ ابو جی کو بھی میں نے کہا کہ انشااللہ سلیکٹ ہو جاؤں گا۔

انٹری ٹیسٹ کا رزلٹ کوئی دو ماہ بعد آنا تھا لیکن میرے لیے یہ دو ماہ دو سال سے بھی طویل تھے۔ میں نے پانچ وقت مسجد جانا شروع کر دیا اور ہر روز صبح تین بجے مصلے پر اٹھ کر کھڑا ہو جاتا۔ میں اللہ سے روتے ہوئے کہتا کہ یا اللہ یہ میری زندگی اور موت کا سوال ہے اور پلیز میری دعا قبول کر لیجیے، مجھے نوکری مل جائے تو مجھے اور کچھ نہیں چاہیے، فقط ایک نوکری کا سوال ہے، یا اللہ تو میری دعا سن لے۔

دو ماہ گزر گئے لیکن رزلٹ نہیں آیا لیکن میری کوئی تہجد بھی نہیں چھوٹی۔ ابو جی بھی گاہے بگاہے پوچھتے رہتے۔ بے چینی دن بدن بڑھتی جا رہی تھی۔ ایک دن میں نے دوست سے پیسے لے کر خود ہی فون کر ڈالا۔ مجھے نہیں پتہ دوسری طرف کون تھا لیکن اس نے بتایا کہ میرا نام لسٹ میں نہیں ہے۔ میں ہوں، ہاں کرتا رہا لیکن حقیقت میں میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا چکا تھا۔

اس کے بعد میری سوچیں مزید پیچیدہ ہوگئیں۔ میں مزید مایوسی کا شکار ہوا اور تہجد اور دعا سب بیکار کی باتیں لگنے لگیں۔

ان دنوں مایوسی اور اللہ سے شکوے اپنے عروج پر تھے، میں اگر اور کاش ایسے فقروں میں پھنس کر رہ چکا تھا جبکہ ابو کا سامنا کرنے کی بھی اب ہمت نہیں تھی۔ اس سے پہلے پہلے عشق کی ناکامی پر بھی کیفیت ایسی ہی تھی۔ اس وقت بھی میں ایسے ہی شکوے گلے کرتا، ایسی ہی آہ و زاریاں تھیں کہ اے خدا کوئی بڑا مطالبہ تو نہیں کیا، فقط ایک شخص ہی تو مانگا ہے۔

یہ وہ دن تھے، جس وقت مجھے سماج سے بے حد نفرت ہو چکی تھی، مولوی اور ایلیٹ، سماجی انصاف اور انسانی حقوق، سبھی بیکار کی باتیں لگتی تھیں۔ اب پلٹ کر دیکھوں تو یہ شاید میری زندگی کا مشکل ترین مرحلہ تھا، مشکل ترین دور تھا۔

اس کے چند ماہ بعد ہی مجھے آئی سی آئی کے پولیسٹر فائبر پلانٹ پر اپرینٹس شپ مل گئی۔ اسی اپرینٹس شپ کے دوران ہی میں نے سمپل ایف اے کیا اور جرمنی کے ایک کالج میں اپلائی کر دیا۔

اپلائی کرنے کے بعد کیا ہوا، اس سے پہلے کیسے تھوڑی بہت جرمن زبان سیکھی، کیسے ٹکٹ کے پیسے جمع کیے اور کیسے ایک بیگ لے کر جرمنی آ گیا، یہ ایک الگ کہانی ہے۔

لیکن اپلائی کرنے کے تقریباََ ڈیڑھ سال بعد میں جرمنی پہنچ چکا تھا۔ یہاں بھی پیسے درختوں پر نہیں لگتے لیکن تگ و دو اتنی نہیں تھی، جتنی اپنے ملک میں تھی، مواقع تھے، حکومتی مدد تھی، امید تھی، محنت کا صلہ تھا اور میں چند برسوں بعد ہی برسر روزگار ہوگیا۔

اب جب بھی میں تاریک اور مایوس حالات کے بارے میں سوچتا ہوں، ماضی پر نظر دوڑاتا ہوں، اس واقعے کے بارے میں سوچتا ہوں تو ایک دم یہ لفظ نکلتے ہیں۔ یا خدا تیرا شکر ہے کہ مجھے کے آر ایل میں نوکری نہیں ملی تھی، ورنہ میں اب تک چالیس، پچاس ہزار روپے کی نوکری کر رہا ہوتا، یا اللہ تیرا شکر ہے کہ میری دعا قبول نہیں ہوئی تھی۔

اب آ کر سوچتا ہوں کہ اگر وہاں ناکام نہ ہوا ہوتا تو یہ والا راستہ اختیار نہ کرتا، اُس فلاں جگہ ناکام نہ ہوا ہوتا تو نئے دروازے تلاش نہ کرتا، اب احساس ہوتا ہے کہ ناکامیاں اصل میں نئی کامیابیوں کے لیے دروازے کھولتی ہیں۔

اب میں سوچتا ہوں کہ بعض اوقات ہم خود ہی اپنی دعاؤں میں اپنا زوال مانگ رہے ہوتے ہیں اور ہمیں اس بات کا علم بھی نہیں ہوتا بلکہ ادراک تک نہیں ہوتا۔

اس واقعے کے بعد میں نے دو چیزیں ضرور سیکھیں۔

ایک یہ کہ کوشش ضرور کرو لیکن رزلٹ جیسا بھی ہو، اس کے ساتھ مطمئن رہو۔ یہی بات ہماری خوشیوں کی ضامن ہے۔

دوسری یہ کہ اگر اور کاش، جیسے لفظ کبھی بھی سکون نہیں دے سکتے اور لازمی نہیں کہ جسے ہم صحیح سمجھ رہے ہیں وہ چیز واقعی ہمارے لیے صحیح ہو۔

میں آج بھی جب پاکستان کی طرف دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے جیسے لاکھوں نوجوان نظر آتے ہیں۔

جب کبھی پاکستان جاوں یا فیس بک پر ایسے درجنوں نوجوانوں سے گفتگو ہوتی ہے، جو پریشان ہیں، حالات سے تنگ آ چکے ہیں، انہیں اپنا مستقبل تاریک نظر آ رہا ہے، وہ کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن اسباب نہیں ہیں، پیسے نہیں ہیں، حکومت کی طرف سے کوئی اسپورٹ پروگرام نہیں ہے۔

لیکن ان نوجوانوں کے اندر ایک جذبہ ہے، لگن ہے، کچھ کرنے کے خواب ہیں، ذمہ داری کا احساس ہے، اپنے گھر والوں کے حالات سنوارنا چاہتے ہیں، غربت کی چکی سے نکلنا چاہتے ہیں لیکن بے بس ہو چکے ہیں، بالکل ویسے ہی بے بس، جیسا ایک دن میں تھا۔

میں ہمیشہ ان نوجوانوں سے کہتا ہوں کہ لگے رہو، غیر نصابی کتابیں پڑھتے رہو، ہاتھ پاؤں ہلاتے رہو، پلاننگ کرتے رہو، میرا بھی ایک دن یہی حال تھا۔ انسان پس پردہ نہیں دیکھ سکتا، مستقبل میں نہیں جھانک سکتا، دو چار سال بعد کیا ہوگا، نہیں جان سکتا۔

میرے متعدد دوست ہیں، جو پاکستان میں بھی کامیاب ہیں، ان کے کاروبار بہتر سے بہتر ہوتے جا رہے ہیں۔ لیکن ایک بات یقینی ہے کہ حالات سدا ایک جیسے نہیں رہتے، محنت کا صلہ ملتا ہے، دروازے کھلتے ہیں اور تاریک سرنگ روشن ہو جاتی ہے۔

Check Also

Mian Muhammad Baksh (19)

By Muhammad Sarfaraz