Iss Tarah To Janwar Bhi Ehtejaj Nahi Karte
اس طرح تو "جانور" بھی احتجاج نہیں کرتے

میں جب تک پاکستان میں تھا تو احتجاج میں ہمیشہ روڈ بلاک ہوتے، موٹر سائیکل، کاریں اور ٹائر جلتے دیکھے تھے۔ ٹی وی پر بھی یہی دکھایا جاتا کہ پولیس عوام کو ڈنڈوں کے ساتھ جانوروں کی طرح ہانک رہی ہے۔ بل بورڈز ٹوٹ رہے ہیں، مشتعل عوام جس چیز کو چاہتی ہے آگ لگا رہی ہے۔ کسی کا سر پھٹ رہا ہے تو کوئی بھاگ رہا ہے۔
جرمنی آیا تو ذہن میں احتجاج کرنے کا یہی طریقہ محفوظ تھا۔ بون یونیورسٹی آتے ہی یونین میں شامل ہوگیا۔ سن دو ہزار چھ میں جرمن حکومت نے فی سمیسٹر پانچ سو یورو فیس متعارف کروا دی، جو آج کل ختم ہو چکی ہے۔
یونیورسٹی یونین کے لڑکوں اور لڑکیوں نے احتجاج کرنے کا پروگرام بنایا۔ میں بھی اس میں شامل ہوگیا۔ پہلے مرحلے میں یونیورسٹی کے گراؤنڈ میں احتجاجی کیمپ لگایا گیا۔
شام کو ڈی جے گانے شروع کرتا اور جرمن لڑکیاں لڑکے ڈانس شروع کر دیتے۔ میں ان دنوں پاکستان سے لمبے گولڈن پائپ اور گھومنے والا حقہ لے کر آیا ہوا تھا۔ جرمن لڑکے لڑکیوں کو حقے میں سب سے زیادہ چیز یہ پسند آئی کہ یہ گھومتا ہے۔ رات دیر تک شیشہ یا حقہ چلتا۔ میرے لیے یہ احتجاج سے زیادہ انجوائے منٹ تھی۔ میں نے اپنے یونین لیڈر فلوریان سے پوچھا کہ نہ ہم نعرے لگا رہے ہیں نہ کوئی توڑ پھوڑ کر رہے ہیں یہ کیسا احتجاج ہے؟
فلوریان نے واپس حیران ہو کر پوچھا کہ یہ پرتشدد احتجاج کہاں ہوتا ہے؟ میں نے فوراََ جواب دیا کہ پاکستان میں تو ہم ایسا ہی کرتے ہیں۔ اس نے پھر کوئی بیس منٹ مجھے یہ بات سمجھانے پر لگائے کہ یہ چیزیں ہمارے پیسوں سے بنی ہوئی ہیں اگر ہم توڑ پھوڑ کریں گے تو ایسے ہی ہے جیسے ہم اپنے گھر کا سامان توڑ رہے ہیں۔
یہ بات کوئی زیادہ میرے ذہن میں نہ آئی اور دل میں سوچا کہ یہ جرمن نکمے ہیں انہیں احتجاج کرنا بھی نہیں آتا۔
اس کے دو دن بعد بون میں احتجاجی مارچ ہوا۔ مارچ کے دوران ٹریفک رواں دواں تھی اور ہم سڑک کنارے کھڑے احتجاج کر رہے تھے۔
مجھے یہ طریقہ پھر عجیب لگا۔ میں نے فلوریان کو کہا کہ سڑک بلاک کرتے ہیں۔ اس کے تو جیسے ہوش ہی اڑ گئے ہوں۔
اس نے احتجاج چھوڑ کر پھر مجھے سمجھانا شروع کر دیا کہ سڑک پر جانے والے لوگوں کا کیا قصور ہے۔ اس طرح تو لوگوں کو ہم خود اپنے خلاف کریں گے اور گاڑیوں میں کوئی ڈاکٹر ہو سکتا ہے، کوئی مریض ہو سکتا، ہمیں کیا حق ہے کہ ہم کسی عام شہری کا راستہ روکیں؟
میں نے دوبارہ اپنی دلیل دی کہ اس طرح احتجاج کا زیادہ اثر ہوگا۔ اس نے تنگ آ کر کہا، امتیاز اس طرح تو "جانور" بھی احتجاج نہیں کرتے۔ خیر میں نے دوبارہ دل میں سوچا کہ ان کو احتجاج کرنا کبھی نہیں آئے گا۔
اس واقعے کے کوئی دو سال بعد میں قصور سے واپس گاوں آ رہا تھا۔ گاڑی دوست کی تھی اور میں شام سے پہلے پہلے واپس گھر پہنچنا چاہتا تھا۔ راستے میں ایک چوک پر احتجاج ہو رہا تھا۔ میں نے وہاں سے گاڑی نکالنی چاہی تو چار پانچ ڈنڈا بردار گاڑی کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔ میں سمجھ گیا کہ یہ کیا کرنے والے ہیں۔ میں فوراََ گاڑی سے باہر نکلا اور ان کے سامنے ہاتھ جوڑ دیے کہ خدارا کار کو نقصان مت پہنچائیے گا۔ مجھے جان کے لالے پڑے ہوئے تھے کہ یہ ابھی کار کے شیشے وغیرہ توڑ دیں گے۔
اس دن پہلی مرتبہ مجھے فلوریان کی بات یاد آئی کہ اس طرح تو "جانور" بھی احتجاج نہیں کرتے۔ خیر انہوں نے میری معافی قبول کی اور کار کو نقصان نہ پہنچایا۔
اس کے بعد مجھے دوبارہ یہ فقرہ اس دن یاد آیا جس دن میری اسلام آباد سے فلائٹ تھی اور مظاہرین نے ایئرپورٹ روڈ بلاک کر رکھا تھا۔ میرا ویزہ چند دن بعد ختم ہونے والا تھا اور مجھے ڈر تھا کہ فلائٹ نکل گئی تو ویزہ بھی ایکسپائر ہو جانا ہے۔ اس دن مجھے احساس ہوا کہ راستہ بلاک کرنے اور توڑ پھوڑ کرنے کی اسٹریٹیجی کس قدر خطرناک ہے اور اس طرح کسی کو کس قدر نقصان پہنچ سکتا ہے۔ فلوریان کی بات اس دن سمجھ آئی کہ اس طرح تو "جانور" بھی احتجاج نہیں کرتے۔
کل پھر ایسا ہی ہوا۔ ایئرپورٹ سے نکلا تو راستے ابھی بلاک ہونا شروع ہوئے تھے اور لاہور کی سڑکوں پر ٹریفک رش بڑھ چکا تھا۔ کافی تگ و دو کے بعد ایک راستہ ملا لیکن وہ بھی کچھ دیر بعد بلاک ہو چکا تھا۔
خیر چند گھنٹوں کی کوشش کے بعد میں موٹروے پر پہنچ چکا تھا لیکن بدقسمتی وہاں پر بھی ایک پل کے اوپر مظاہرین تھے، جو نیچے آتی جاتی گاڑیوں پر بھی پتھر اور اینٹیں پھینک رہے تھے۔
میں نے گاڑی سائیڈ پر کر لی، کچھ بعد ہجوم بڑھا اور انہوں نے گاڑیوں کو توڑنا شروع کر دیا۔ ہم نے موٹروے پر ہی گاڑی موڑی اور الٹی سمت بھاگنا شروع کر دیا۔
اس کے بعد پولیس آئی اور اس نے مظاہرین پر آنسو گیس کے ساتھ ساتھ ہوائی فائرنگ شروع کر دی۔ تشدد کے جواب میں تشدد پیدا ہو چکا تھا۔ سنا ہے گزشتہ روز باقی چند شہروں میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔
ابھی تک کوئی حتمی، واضح اور مصدقہ اطلاعات نہیں ہیں کہ کتنے لوگ مارے گئے ہیں اور کتنے زخمی ہوئے ہیں اور مالی نقصان کتنا ہوا ہے؟
ہلاکت کسی ایک شخص کی بھی ہو، وہ بہت بڑا نقصان ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں جان کی قدر نہیں رہی، دو چار ہلاکتوں پر تو کوئی مڑ کر نہیں دیکھتا، یہ بدقسمتی نہیں تو اور کیا ہے؟
اب بھی جگہ جگہ راستے بند ہو رہے ہیں۔ پاکستان میں یہ روایت بن چکی ہے کہ احتجاج کے دوران راستے بند کر دیے جائیں لیکن کسی کو احساس تک نہیں کہ بیچارے غریب عوام کس کرب اور تکلیف سے گزر رہے ہیں۔ کسی نے گھر پہنچنا ہے، کسی نے فلائٹ پکڑنی ہے، کسی بچے کو ہسپتال لے کر جانا ہے، کسی ڈاکٹر نے ہسپتال پہنچنا ہے۔
پاکستان میں راستے حکومت بلاک کرے یا احتجاجی مظاہرین، مذہبی جماعتیں کریں یا آزاد خیال، نواز شریف بلاک کریں یا عمران خان، میرے ذہن میں یہی آتا ہے کہ اس طرح تو "جانور" بھی نہیں کرتے۔
مجھے یہ بات بھی سمجھ نہیں آتی کہ جو اسلام راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹانے کا درس دیتا ہو، اس اسلام سے راستے بند کرنے، لوگوں کو تکلیف پہنچانے کی تشریح کیسے نکالی جا سکتی ہے؟
میرا مذہبی علم بہت ہی محدود ہے لیکن چند برس پہلے میں نے ایک حدیث پڑھی تھی، جس کا مفہوم کچھ یوں ہے۔ مسجد میں نماز جنازہ پڑھانا مناسب نہیں لیکن اگر جنازے میں شریک افراد کی وجہ سے کوئی راستہ بند ہو جانے کا خدشہ ہو تو نماز جنازہ مسجد میں کروانے کی اجازت ہے۔
لیکن آج کے مذہبی رہنماوں کو دیکھیں، تو راستے بلاک کرنا، ایمبولینسوں کو روکنا، املاک کو نقصان پہنچانا، لوگوں کو دفاتر جانے سے روکنا، ان کے نزدیک درست عمل ہوتا جا رہا ہے۔
ہمیں قبول کرنا ہوگا کہ ہمیں تو احتجاج کرنا اور احتجاج کرنے کا حق دینا بھی نہیں آتا، ایسا احتجاج تو "جانور" بھی نہیں کرتے۔

