Friday, 19 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Imtiaz Ahmad/
  4. Dil Ke Dareeche Mein Utarti Chandni (2)

Dil Ke Dareeche Mein Utarti Chandni (2)

دل کے دریچے میں اترتی چاندنی(2 )

امی بتا رہی تھیں کہ تب لوگ دودھ فروخت کرنا اپنی توہین سمجھتے تھے، یہ فقرہ عام ہوتا تھا، "دودھ اور بیٹے بیچے نہیں جاتے"، امی جی بتاتی ہیں کہ پورے گاؤں میں صرف تمہارے ابو کے پاس ریڈیو ہوتا تھا اور لوگ شام سات بجے کی خبریں سننے کے لیے پہلے ہی اپنے حقے ساتھ لیے ہمارے گھر کے صحن میں جمع ہونا شروع ہو جاتے تھے۔

ایک پادری گاؤں سے گزر کر کسی دوسرے گاؤں جایا کرتا تھا۔ وہ پھٹ پھٹی (موٹر سائیکل) پر سفر کرتا تھا تو گاؤں کے بچے اور کئی دوسرے لوگ اسے دیکھنے کے لیے پہلے ہی ہر اتوار کو سیم والے بڑے نالے کے قریب کھڑے ہو جاتے تھے۔ پورے علاقے میں دھوم تھی کہ پادری کے پاس پھٹ پھٹی ہے۔

امی شوق سے بتاتی رہیں کہ کیسے سائیکلوں اور گھوڑوں پر تمہارے ابو کی بارات گئی۔ پہلے سفر طویل ہونے کی وجہ سے بارات دلہن کی طرف ایک رات قیام بھی کیا کرتی تھی۔ اور جب دلہن آتی تھی تو اُس کے لیے لازمی ہوتا تھا کہ وہ گاؤں کے ہر گھر میں ملنے کے لیے جائے۔ اسے کُمائی ڈالنا کہتے تھے۔

امی بتاتی رہیں کہ ڈیروں پر رہٹ چلتے تھے، مٹی کے کوزوں سے پانی پیتے تھے۔ پہلے پنجابی لڑکیاں اور لڑکے سبھی کُھسّے اور ہاتھ سے بنی چمڑے کی چپلیں ہی پہنتے تھے جبکہ خواتین بھی نہ صرف تہبند باندھا کرتی تھیں بلکہ گھوڑوں پر سفر بھی کرتی تھیں۔ جب پہلی مرتبہ مردوں اور عورتوں کے پلاسٹک کے جوتے آئے تو ان سب کا رنگ صرف گلابی ہوتا تھا۔

امی سناتی رہیں اور میں ایک دس سالہ بچے کی طرح حیرت سے سنتا رہا۔ مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے میرا وہ بچپن واپس لوٹ آیا ہو، جب ہم کچی چھتوں پر بیٹھ کر باجی رضیہ سے جِنّوں، پریوں اور طوطا مینا کی کہانیاں سنا کرتے تھے، راتوں کو چھت پر جگنو پکڑا کرتے تھے اور دن کو تتلیوں کے پیچھے بھاگا کرتے تھے۔

باتیں پاکستان بننے سے پہلے کی چل نکلی ہیں اور امی بتا رہی ہیں کہ سِکھ کس طرح مسلمان عورتوں کا احترام کیا کرتے تھے۔ جب کوئی مسلمان عورت کھیتوں سے چارہ وغیرہ سر پر اٹھا کر لا رہی ہوتی تو وہ راستہ ہی تبدیل کر لیا کرتے تھے۔ سِکھ ڈیروں پر شراب بناتے اور وہاں پر ہی پی کر لیٹے رہتے تھے۔ رمضان کا احترام بھی بہت کرتے تھے اور کسی مسلمان کے سامنے کھاتے پیتے نہیں تھے۔ جاٹ اس دور میں بھی مال ڈنگر چوری کرتے تھے لیکن یہ اصول ہوتا تھا کہ اپنے گاؤں سے پچاس میل کے دائرے میں چوری نہیں کرنی۔

پھر امی جی ایک دم افسردہ سی ہو گئیں کہ کس طرح تقسیم ہند کے وقت سِکھوں کو مارا گیا تھا، طاقتور جاٹوں نے کس طرح ان کے گھروں کا سامان لوٹا تھا۔ کس طرح پھمہ سراء کے جاٹ ان کو سرحد پار کروانے کے بہانے لے کر جاتے تھے اور فاروق آباد والی بڑی نہر کے قریب ان سے زیور وغیرہ چھین کر انہیں قتل کرتے اور نہر میں پھینک دیتے تھے۔ امی کی باتیں جاری رہتیں لیکن انہوں نے کچھ دیر بعد اٹھ کر تہجد پڑھنی ہے اور وہ نیچے چلی گئی ہیں۔

رات کا دوسرا پہر ہے اور لائٹ بھی آ چکی ہے۔ کاش نہ آتی۔

میں ان طلسماتی لمحوں کو قید کر لینا چاہتا ہوں لیکن لمحے تو نہر میں بہتے ہوئے پانی کی طرح ہیں، سورج کی تپش سے پگھلتی ہوئی برف کی طرح ہیں، بھلا کیسے قید ہوں؟ دور کھیتوں میں واقع کسی ڈیرے یا حویلی میں سے کبھی کبھار کسی کتے کے بھونکنے کی آواز آ رہی ہے یا کبھی کبھار کسی گدھے کے ہیچوں ہیچوں کرنے کی آواز آ جاتی ہے۔ میں بھی اٹھ کر نیچے کمرے میں آ گیا ہوں۔ بیٹھک میں لگا چھت والا پنکھا بغیر کسی منزل کے بس گھومتا چلا جا رہا ہے۔ ایک مخصوص وقفے کے بعد پیدا ہونے والی اس کی گھُوں گھُوں کی آواز نے ایک عجیب سے کیفیت طاری کر رکھی ہے۔

بے ڈھنگے خیالات کسی دریا میں صدیوں سے پڑے پتھر پر جمی کائی کی طرح ذہن سے چمٹے ہوئے ہیں، میں باہر سے آنکھیں بند کرتا ہوں تو اندر سے درجنوں بھولی بسری یادیں اپنی آنکھیں کھول لیتی ہیں۔ کروٹ بدل کر دیکھتا ہوں تو بیٹھک کی جالی دار کھڑکی سے چاندنی کے ساتھ ساتھ ماضی کے کئی مبہم اور لرزاں چہرے بھی اندر جھانکنا شروع کر دیتے ہیں۔

اسی بیٹھک کی جگہ بیٹھ کر کبھی کسی گول مٹول کلائیوں والے ایک سانولے سے چہرے کے لیے پہلا شعر لکھا تھا۔ جب میں کسی کے نشیلے نین دیکھ کر یہ گنگنایا کرتا تھا، "لے کے پہلا پہلا پیار، بھر کے آنکھوں میں خُمار، جادو نگری سے آیا ہے کوئی جادو گر" اور میں غیر محسوس طریقے سے گاتا تھا، "کوئی ساوی ونگ ماہیا، سانوں تے پسند آیا تیرا سانولا رنگ ماہیا"۔ ہائے ہائے! جنم سے پہلے ہی مر جانے والی ان کہی خواہشوں اور محبتوں کیا بنا؟

اچانک ذہن میں میرا اپنا ہی مستقبل گھوم رہا ہے۔ کیا ابو جی کی طرح میرا چہرہ بھی ایک دن اسی طرح بے نام و نشاں ہو کر محض ماضی کا ایک قصہ بن کر رہ جائے گا؟ کیا میں بھی کبھی امی جی کی طرح بچھڑ جانے والوں، رفتہ رفتہ وقت کی ریت میں دفن ہو جانے والوں، قبر کی گود میں سو جانے والوں کو ایسے ہی حسرت بھری آہوں کے ساتھ یاد کروں گا تو آنکھیں نم ہو جایا کریں گی؟

یا ہو سکتا ہے کہ کوئی مجھے بھی یاد کیا کرے تو اس کی آنکھیں بھی نم ہو جایا کریں، یا ہو سکتا ہے کوئی یاد ہی نہ کرے، کون جانے کیا ہو گا؟ میں ان خیالات کو جھٹک رہا ہوں لیکن یہ آنکھ مچولی جاری ہے۔ جھینگر (تریڈی) کا شور تیز ہوتا جا رہا ہے، جالی والی کھڑکی سے گم گشتہ چہرے ابھی بھی جھانک رہے ہیں، چھن چھن کرتی چاند کی کرنیں بیٹھک میں دھمال ڈال رہی ہیں۔

Check Also

America, Europe Aur Israel (1)

By Muhammad Saeed Arshad