22 Baras Baad Hone Wali Aik Call
22 برس بعد ہونے والی ایک کال
میری ان سے زیادہ سے زیادہ تین یا چار ملاقاتیں ہوئی ہوں گی۔ یہ شاید سن 1999 کی بات ہے اور ان دنوں میری زندگی کی تمام تر رونقیں ختم ہو چکی تھیں۔ میٹرک کی محبت میں ناکامی کے بعد میرا مستقبل بھی مجھے سیاہ نظر آ رہا تھا۔ والد صاحب پر پورا گھر چلانے کا بوجھ تھا اور کوئی بھی بھائی ابھی اس حالت میں نہیں تھا کہ مالی لحاظ سے ابو جی کی مدد کر سکے۔
میں نے گوجرانوالہ سویڈش انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے پہلا سال اچھے نمبروں سے مکمل کر لیا تھا لیکن دوسرے سال کے لیے فیسیں نہیں تھیں، نوشہرہ ورکاں سے روزانہ گوجرانوالہ آنے کے لیے کرایہ نہیں تھا۔ اگر کرایہ مل جاتا تو سارے دن میں کچھ کھانے کے لیے نہیں ہوتا تھا اور اگر کچھ کھانے کے لیے مل جاتا تو نصاب کی کتب خریدنے کی فکر لگی رہتی تھی۔
ایک دن میں حالات سے اتنا تنگ آیا کہ میں نے جذباتی ہو کر اپنے تمام تر میڈلز اور مختلف تقریری مقابلوں میں جیتے ہوئے انعامات فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔ اسی دن میری ٹرسٹ پلازہ میں ان سے ملاقات ہوئی تھی اور یہ وہاں شاید لینگوئجز پڑھایا کرتے تھے۔ میں مایوس تھا، انہوں نے مجھے حوصلہ دیا کہ دیکھو، ہم جس کلاس سے تعلق رکھتے ہیں، وہاں محنت کرنا پڑتی ہے، حالات مشکل ہی ہوتے ہیں، یہ ہمارے نصیب ہیں لیکن تم جدوجہد جاری رکھو۔
انہوں نے مجھے یہ بھی کہا کہ تم کوئی نہ کوئی زبان سیکھو، تم کسی دوسرے ملک جا سکتے ہو، مایوس نہیں ہونا۔ اس دبلے پتلے نوجوان نے مجھے اپنی جیب سے کچھ پیسے بھی نکال کر دیے کہ یہ لو کرایہ اور گھر واپس جاؤ۔ میری ان سے بس ایسی ہی کوئی دو چار مختصر سی ملاقاتیں ہوئیں، مجھے بس یہ پتا تھا کہ وہ حافظ آباد کے قریب جلہن گاؤں کا رہنے والا ہے اور اس نے دو دن بعد جرمن سفارت خانے میں اسٹڈی ویزے کا انٹرویو دینے جانا تھا۔
اس نے مجھے بس یہ بتایا تھا کہ دو دن بعد انٹرویو ہے اور ابھی تک اس کے اکاؤنٹ میں مطلوبہ رقم بھی نہیں ہے۔ جیسے ہی اچانک ملاقات ہوئی تھی، ویسے ہی یہ شخص غائب بھی ہوگیا تھا۔ اس کے بعد تین چار برس میری زندگی کے مشکل ترین سال تھے اور تمام تر کوششوں کے باوجود ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔
قصہ مختصر، اس واقعے کے تقریباََ پانچ برس بعد میں جرمنی کی بون یونیورسٹی میں پہنچ چکا تھا۔ حالات بدلے تو مجھے کبھی کبھار وہ لوگ بھی یاد آنے لگے، جن سے انتہائی مختصر ملاقاتیں ہوئیں لیکن انہوں نے مجھے زندگی گزارنے کا حوصلہ دیا تھا۔ میری زندگی میں ایسے چند ہی لوگ آئے ہیں، جنہوں نے شرمندہ کیے بغیر میری اس طرح مدد کی ہو اور ان میں سے ایک یہ بھی تھے۔
مجھے زندگی میں، جو چیز آج تک سب سے مشکل لگی ہے، وہ کسی سے کچھ مانگنا ہے، مجھے یہ لگتا ہے کہ جیسے میں شرمندگی سے زمین میں دھنستا جا رہا ہوں۔ خیر میری زندگی میں کبھی ایسا کوئی دوسرا واقعہ بھی نہیں ہوا کہ کسی نے میرے ہاتھ میں چپکے سے کرایہ تھما دیا ہو۔ وقت کا پہہ چلتا رہا، میں کبھی کبھار سوچتا تھا کہ کاش مجھے یہ والے دو، تین لوگ مل جائیں تو میں ان کا کم از کم شکریہ ہی ادا کر سکوں اور ان میں یہ شخص بھی شامل تھے۔
آہستہ آہستہ میں اس شخص کا نام بھی بھول گیا، یاد کرنے پر ایک دو نام ذہن میں آنے لگے لیکن یقین نہیں تھا کہ اصل نام کیا ہے؟ لیکن جو میں کبھی نہیں بھول سکا، وہ یہ تھا کہ اس شخص کا تعلق جلہن سے ہے اور اس نے جرمنی جانا تھا۔
ہوا یوں کہ ابھی چند ہفتے پہلے مجھے میری جاننے والی ایک میڈم نے ایک پیغام فارورڈ کیا، جس میں ایک عربی کہاوت کا ترجمہ تھا۔ وہ مجھے بھی جانتی ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہ صاحب بھی جرمنی ہوتے ہیں، بہت اچھی ٹویٹس کرتے ہیں اور ان کا تعلق جلہن گاؤں سے ہے۔ گاؤں کا نام سنتے ہوئے مجھے ایک دم خیال آیا کہ یہ کہیں وہی شخص نہ ہو، جس کا مجھے کبھی نہ کبھی خیال آتا رہتا ہے۔ میں نے میڈم سے کہا کہ پلیز ان سے پوچھیں کہ یہ گوجرانوالہ ٹرسٹ پلازے میں بھی کبھی پڑھاتے رہے ہیں؟ انہوں نے پوچھا تو ان کا جواب، ہاں میں تھا۔
کل میں نے جرمنی کے ایک نمبر پر میسج کیا کہ محترم اشتیاق صاحب، آپ مجھے نہیں جانتے لیکن میں آپ سے چند منٹ کے لیے گفتگو کرنے کا خواہش مند ہوں اور آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ میری کل کوئی دس پندرہ منٹ ہنس مکھ اشتیاق صاحب سے گفتگو ہوئی اور وہ میرے کولیگ عاطف توقیر صاحب کو بھی جانتے تھے۔ انہوں نے جلد ہی ملنے کا وعدہ بھی کیا ہے لیکن اس مختصر سی گفتگو کی لطافت ناقابل بیان ہے۔
یہ بائیس برس بعد ہونے والی وہ کال تھی، جس نے میرے دل کا ایک بوجھ ہلکا کر دیا ہے۔