Talkh Siasi Haqaiq Aur Pak Fauj Ka Umda Kirdar
تلخ سیاسی حقائق اور پاک فوج کا عمدہ کردار
ہٹلر کہتا ہے کہ کسی بھی قوم پر کاری ضرب لگانے کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ اُس ملک کی فوج کو اپنی قوم کے سامنے اس قدر مشکوک بنا دو کہ قوم اپنے محافظوں کو دشمن سمجھنے لگے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں ان دنوں یہ کھیل خوب کھیلا جا رہا ہے۔ سیاست دانوں کا خیال ہے کہ پاک فوج کے افسران پر الزامات لگاسکتے ہیں اور عوامی جلسوں میں پاک فوج کی تذلیل کرسکتے ہیں کیونکہ وہ عوام میں مقبول ہیں اور جب اُن کی حب الوطنی پر سوال کیا جائے تو سیاست دانوں کا یہ کہہ دینا ہی کافی ہے کہ "ہمیں کسی سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت نہیں ہے"۔
اگر یہ بات مان لی جائے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پیشہ وارانہ سرگرمیوں کی ادائیگی کے دوران اپنے آفیسرز اور جوانوں کی قیمتی جانوں کا نذرانہ، ارض پاک پر نثار کرنے والے سلامتی کے اداروں کو"دوغلے، منافق اور کرپٹ سیاست دانوں" سے کیا حب الوطنی کا کوئی سرٹیفکیٹ لینے کی ضرورت ہے؟ ساری قوم کاجواب یقیناً نفی میں آئے گا۔ سیاست دانوں کا کردار سمجھانے کے لیے پاکستانی سیاست کے چند تلخ حقائق پیش ہیں۔
چند سال پہلے ہندوستان کے سابق وزیر اعظم گجرال کا ایک مضمون بھارتی اخبارات کے ساتھ ساتھ پاکستانی اخبارات میں بھی چھپا تھا جس میں وہ خوفناک انکشاف کرتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر میں جب مجاہدین نے ہندوستانی ہیلی کاپٹرپر فائر کیا تو ہندوستانی سلامتی کے اداروں میں شدید تشویش کی لہر دوڑ گئی جس پر ہندوستانی وزیر اعظم نے رات گئے ہاٹ لائن پر پاکستانی وزیر اعظم سے رابطہ کیا اور یوں حکومت پاکستان کی مدد سے دہشت گردوں یعنی کشمیری مجاہدین پر قابو پایا جا سکا۔ کیا ایک محب وطن وزیر اعظم کا رویہ ایسا ہوتا ہے؟
"ممبئی حملوں میں پاکستان ملوث تھا اور ان حملوں کی ساری منصوبہ بندی پاکستان میں ہوئی" یہ بیان سابق وزیر اعظم پاکستان کا تھا جو انہوں نے حُب اقتدار اور بغض پاکستانی فوج میں دیا تھا۔ ایک اور موقع پر سابق پاکستانی وزیر اعظم نے ایک انٹرویو میں راجیو گاندھی کو جتلایا تھا کہ اگر اُن کے وزارت عظمٰی کے دور میں حکومت پاکستان، مشرقی پنجاب میں ہندوستانی وزیر اعظم راجیو گاندھی کی مدد نہ کرتی تو ہندوستان کا نقشہ بدل جاتا"۔
سوال یہ ہے کہ ایک دشمن ملک جو آپ کو پہلے ہی دو ٹکڑوں میں تقسیم کر چکا ہو، ایسے دشمن کی کون سا محب وطن لیڈر مدد کرتا ہے؟ اسی طرح ایک سابق وزیر اعظم کو کسی طرح اطلاع ملی کہ کچھ ملکی سیاست دان باقاعدگی سے اسلام آباد میں واقع ہندوستانی سفارت خانے میں شراب و شباب کی محفلوں میں شرکت اور شب بسری بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے آئی ایس آئی چیف اور آئی بی کے سربراہ کو دو ہفتے میں اس خبر کی تصدیق اور ملوث سیاست دانوں کی نشان دہی کا حکم دیا۔ دو ہفتے بعد جب رپورٹ آئی تو اُس میں حکومت وقت کے وزیر دفاع، وزیر خزانہ اور چند دیگر وزراء کے نام سرفہرست تھے۔ اس فہرست کو دیکھ کر وزیر اعظم نے آگ بگولہ ہوکر کہا "آپ لوگ(فوج) سیاست دانوں کو بدنام کر نے پر تُلے ہوئے ہیں"۔ کیا ایک منتخب اسلامی جمہوری ملک کی وزیر اعظم کا جواب ایسا ہوتا ہے؟
بد قسمتی سے پچھلے ڈیڑھ سال سے ایک سیاسی پارٹی کے قائد اور کارکنوں کی جانب سے مسلسل پاک فوج کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے اور سیاسی و نظریاتی اختلاف میں نفرت کا عنصر بُری طرح شامل کر دیا گیا ہے۔ اُس سیاسی جماعت کے قائد کی جانب سے پہلے اپنی گرفتاری کو ہر ممکن طریقے سے ناکام بنانے کے لیے بچوں اور عورتوں کی ڈھال کو بھی استعمال کیا گیا اور جب موصوف گرفتار ہوئے تو اُن کی جماعت کے کارکنوں نے سرکاری کے ساتھ ساتھ عوام کی املاک کو بھی نقصان پہنچایا جو انتہائی قابل مذمت عمل ہے۔
کسی بھی سیاسی رہنما پر اگر غلط کیسز ہیں تو عدالتیں موجود ہیں وہاں اپنا دفاع کیا جا سکتا ہے جیسے پی ٹی آئی کے دور حکومت میں ہر سیاسی مخالف کو مختلف کیسز میں پھنسایا گیا تھا اور جب کچھ ثابت نہ ہوا تو پھر انہیں عدالتوں سے ریلیف مل گیا۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین، ان دنوں جیل میں ہیں اگر وہ بے گناہ ہیں تو اپنی بے گناہی کو عدالتوں میں ثابت کریں مگر اداروں کو ملعون کرنے سے پرہیز کریں۔ اُوپر بیان کیے گئے واقعات کی ایک لمبی فہرست ہے جس میں ہمارے نام نہاد جمہوری سیاست دانوں کا اصلی چہرہ بے نقاب ہوتا ہے۔ کیا اُوپر بیان کیے گئے واقعات اورحالیہ دنوں میں پختونوں کی سیاسی جماعت اور اُن کے قائدین کی اسلام آباد میں جلسے میں کی گئی تقاریر ثابت نہیں کرتی کہ ہمیں بیرونی دشمنوں سے شاید اتنا خطرہ نہیں، جتنا اندرونی منافقوں اور اقتدار کی خواہش والے لوگوں سے ہے۔
مادر ملّت فاطمہ جناح نے آج سے ساٹھ سال پہلے لاہور میں تقریر کرتے ہوئے بڑی حقیقت پسندانہ باتیں ارشاد فرمائی تھیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ اُن باتوں کا اطلاق آج کے حالات میں بھی ہوتا ہے۔ اُنہوں نے فرمایا "آج ہمیں اتحاد و استحکام کی انتہائی ضرورت ہے ہمارا مُلک نہ صرف بیرونی دشمنوں سے گھرا ہوا ہے بلکہ اندرونی دشمن بھی اُسے جونک کی طرح کھا رہے ہیں۔ میں مسلسل کئی سال سے قوم کو آنے والے خطرات سے آگاہ کر رہی ہوں اور اگر اب بھی وہ متحد ہو کر نظریہ پاکستان کی حفاظت کے لیے تیار نہ ہوئی تو تاریخ اُسے کبھی معاف نہیں کرے گی"۔
دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری سلامتی کے اداروں کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا اعتراف ساری دنیا کرتی ہے۔ اقوام متحدہ کے سابق سیکریٹری جنرل بان کی مون نے ایک بار کہا تھا کہ اقوام متحدہ کے امن مشنوں میں ایک سو سے زائد ممالک کی افواج حصہ لے چکی ہیں مگر پاکستانی فوج کی کارکردگی سب سے نمایاں ہے۔ ہندوستانی خفیہ ایجنسی RAWکے سابق چیف جنرل دولتDAULAT نے ایک بار کہا تھا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی دنیا کی خطرناک اور طاقتور ترین ایجنسی ہے۔ فوجی اُمور کے امریکی ماہر کہتے ہیں کہ آئی ایس آئی کم اخراجات کے ساتھ دنیا کی ایک بہترین خفیہ ایجنسی ہے۔
پاکستانی افواج قربانیوں کی ایک لمبی داستان کی امین ہے ہماری خوش نصیبی ہے کہ پاک فوج کو ہمیشہ سے دلیر، امن پسند اور پیشہ ور سپاہی کی قیادت دستیاب رہی ہے۔ موجودہ سپہ سالار جنرل عاصم منیر بھی اپنی ذمہ داریاں احسن انداز میں ادا کر رہے ہیں وہ ہر لمحہ اور ہر جگہ اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے میدان عمل میں مصروف نظر آتے ہیں۔ جنرل عاصم منیر اپنی پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ عمدہ سفارت کاری کرتے ہوئے پاکستان کے ہمسائیہ ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات بنانے میں بھی اہم کردار اداکر رہے ہیں۔
پاکستانی قوم کواپنے جوانوں پر فخر ہے کہ وہ ہمارے آرام کے لیے خود بے آرام ہوتے ہیں، ہماری نیند کے لیے، وہ جاگتے ہیں اور اپنی جانوں کے نذرانے دے کرملکی سرحدوں کی نہ صرف حفاظت کر رہے ہیں بلکہ ادویات کی فراہمی، زلزلوں سے متاثرہ علاقوں میں امدادی سرگرمیاں، الیکشن کو پُرامن بنانا، دہشت گردی کے خلاف جنگ، شاہراؤں کی تعمیر، سیلاب کے دنوں میں امدادی سرگرمیاں سمیت ہر مشکل میں قوم کے ساتھ گھڑے ہوتے ہیں۔
قارئین! حالت جنگ ہو یا امن، پاک افواج جس مستعدی اور جان فشانی سے وطن عزیز کے دفاع کے لیے سربکف ہے وہ پوری قوم کے لیے باعث اطمینان اور سرمایہ افتخار ہے۔ آج فوج کے خلاف بولنے والے عناصر کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے لہذا اب عوام کی باری ہے کہ وہ اپنی آنکھوں پر بندھی پٹی کھولیں، وطن دشمن کو پہچانیں اور مُلک دشمن قوتوں کے ہاتھوں میں نہ کھیلیں۔ اگر آج ہم اپنے اندر اسلاف کی صفات پیدا کر لیں تو چشم زدن میں ہماری تقدیر بدل سکتی ہے اور ایک خوددار قوم کی حیثیت سے ہمیں اقوام عالم میں ایک معزز مقام بھی مل سکتا ہے۔
ہمارا دشمن ہماری افواج اور عوام کے درمیان مضبوط تعلق سے خائف ہے اور اس پیار کے تعلق کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ آؤ آج وعدہ کریں کہ پاکستانی قوم اپنی محسن پاکستانی افواج کے ساتھ کھڑی رہے گی اور دشمن ایجنڈے پر کام کرنے والے شرپسند عناصر کی ہر محاذ پر بیخ کنی کرے گی۔