Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Imran Amin/
  4. Siraj Ul Haq Ki Shikast Ka Noha

Siraj Ul Haq Ki Shikast Ka Noha

سراج الحق کی شکست کا نوحہ

الیکشن میں عجب تماشا ہوگیا۔ انسانیت کا پلڑا ہلکا ہوگیا؟ کیا یہ سچ ہے؟ یہ انہونی کب اور کیسے ہوئی؟ پاکستانی معاشرے میں ایک طرف شخصیت پرستی، کرپشن، اقرباء پروری، رشوت، سفارش، فراڈ، دھوکہ، نسلی منافرت، علاقائی تعصب، مذہبی گراوٹ، اخلاقی تنزلی، جہالت میں گھرے ہوئے افراد کا جم غفیراور دوسری طرف مختصر سے گروہ کے ساتھ عدل و انصاف اور انسانیت کا علم بردار کھڑا ہے۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ کلمہ طیبہ کے نام پر حاصل کیے گئے ملک میں فرشتہ نما انسان کی قدر نہ کی جائے جبکہ اسلام کی تعلیمات اور آپﷺ کی ذات مبارک نے مسلمانوں کو دنیا اور آخرت میں کامیابی کے سبق سکھائے اور پڑھائے ہیں، مگر بد قسمتی سے ہمارے معاشرے کی اکثریت ایسے اسباق بھول چکی ہے۔

ہمارے معاشرے میں مصلحت اندیشی اور حقیقت پسندی کے عنوانات سے عبارت زندگی میں صرف وہ سبق اہم رہ گئے ہیں جو ذاتی مقاصد کے حصول میں معاون نظر آتے ہوں۔ ہم امارت کے دکھلاوے کے لئے صدقہ خیرات کرتے ہیں، خود کو مقبول بنانے کے لئے محلہ داروں کا حال احوال پوچھتے ہیں، ہوس کی آگ بجھانے کے لئے عورت کی عزت کرتے ہیں، مہمان نوازی دکھلاوے کے لئے کرتے ہیں، گھر کا کوڑا باہر پھینک کر ماحول کو صاف رکھتے ہیں الغرض ہم حسد کرتے ہیں، بغض رکھتے ہیں، تہمت لگاتے ہیں اور ظلم کرتے ہیں۔ ایسے معاشرے کے افراد کی منفی سوچ نے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کو الیکشن میں ہرا دیا اور یوں اپنی بد قسمتی پر مہر لگا دی۔

پورے ملک کے ہر مکتبہ فکر میں سراج الحق کی شخصیت کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ پانامہ کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے جسٹس آصف کھوسہ کے الفاظ تھے کہ اگر پارلیمنٹ میں دفعہ 62 اور 63 نافذ کی جائے تو شاید سراج الحق کے سوا کوئی نہیں بچے گا۔ سارا جہان اُن کی ایمان داری اور سادگی کا گواہ ہے انہوں نے کے پی کے میں بطور وزیر خزانہ ایک یادگار کردار ادا کیا تھا جسے لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں۔ انہوں نے کے پی کے میں پہلی بار سود سے پاک بینکاری شروع کروائی۔ صوبے میں پانی سے بجلی پیدا کرنے والے کارخانے لگوائے۔

طالب علموں کو مفت تعلیم، کتابیں اور بہترین اساتذہ فراہم کئے۔ انہوں نے اپنے دور وزارت میں قومی خزانے کو عوامی امانت سمجھتے ہوئے سادگی کی کئی مثالیں قائم کی اور سرکاری رہائش گاہ میں رہنے کی بجائے، پشاور میں کرائے کے مکان میں رہائش اختیار کی۔ اس کے علاوہ بطور امیر جماعت اسلامی اپنی محنت، لگن اور انسان دوست رویے کی وجہ سے پوری دنیا میں جانے جاتے ہیں۔

پاکستان سمیت پوری دنیا میں جہاں بھی کسی اسلامی ملک کی آبادی قدرتی آفت یا پریشانی کا شکار ہوئی تو سب سے پہلے وہاں جماعت اسلامی کے رضا کار پہنچے، جس حد تک ممکن ہوا متاثرہ علاقوں کے افراد کو مالی، طبعی، مادی اور اخلاقی امداد فراہم کی۔ پاکستان کی عوام سیلاب کی تباہ کاریوں سے متاثر ہو یا زلزلہ کی آفت میں گھری ہو، ہمیں اُن علاقوں میں جماعت اسلامی کی امدادی سرگرمیاں نمایاں نظر آتی ہیں۔

عورتوں کے جائز حقوق کی بات ہو، یتیموں پر دستِ شفقت رکھنا ہو، نادار اور غریب افراد میں صدقہ و خیرات تقسیم کرنا ہو، لوگوں کو فری میڈیکل کی سہولیات پہنچانی ہو یا ادویات کی فراہمی ہو۔ ہمیں ہر جگہ ہر مقام پر جماعت اسلامی سے جڑی تنظیمیں کام کرتی نظر آتی ہیں پھر کیا وجہ ہوئی کہ کے پی کے کے غیور عوام نے اس ہیرے جیسے انسان کو مسترد کر دیا؟ اگر ہم سنجیدگی سے غور کریں تو اس طرح کا طرزِ عمل پوری قوم کے لئے لمحہ فکریہ ہے اور اس موقع پر چند سوالات ذہن میں آتے ہیں کہ کیا ہم انسانیت کا سبق بھول چکے ہیں؟

کیا ہم معاشرے کے درد مند لوگوں کو مایوس کرنا چاہتے ہیں؟ کیا ہماری زندگیوں سے اخلاقیات کا جنازہ نکل چکا ہے؟ کیا ہم انسانوں میں اچھے اور بُرے کی تمیز سے قاصر ہیں؟ قرآن کی مشہور تفسیر تفہیم القرآن میں مولانا مودودیؒ فرماتے ہیں"بنی اسرائیل کی بنیادی غلطیوں میں سے ایک یہ تھی کہ انہوں نے اپنے انحطاط کے زمانہ میں امانتیں، یعنی ذمہ داری کے منصب، مذہبی پیشوائی اور قومی سرداری کے مرتبے ایسے لوگوں کو دینا شروع کر دئیے جو نااہل، کم ظرف، بد اخلاق، بد دیانت اور بدکار تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بُرے لوگوں کی قیادت میں ساری قوم خراب ہوتی چلی گئی، جبکہ مسلمانوں کو(قرآن میں) ہدایت کی جا رہی ہے کہ تم ایسا نہ کرنا، بلکہ امانتیں ان لوگوں کے سپرد کرنا جو اہل ہو، یعنی جن میں بار امانت اُٹھانے کی صلاحیت ہو"۔

مولانا مودودی ایک جگہ اور فرماتے ہیں قرآن پاک میں واضح ہے کہ ایک قوم اگر نہ چاہتی ہوکہ اس کے اُوپر اسلامی نظام نافذ ہو، ایک قوم اگر نہ چاہتی ہو کہ اُس کے معاملات ایمان دار اورخدا ترس لوگ چلائیں۔ ایک قوم خود بد دیانت اور بے ایمان کو چاہتی ہوتو اللہ اُن کو زبردستی نیک لوگ نہیں دیتا۔ ان نیک لوگوں کا اجر اللہ کے پاس ہے۔

وہ نیک لوگ ناکام نہیں ہیں بلکہ ناکام وہ قوم ہے۔ "یاد رکھیں! افراد کے منظم مجموعہ کا نام قوم ہوتا ہے اور دنیا میں اسی قوم نے ترقی کی اور اپنا نام آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کر لیا، جنہوں نے اپنی زندگیوں میں اخلاقیات کا اپنا لیا۔ ایسی قوموں نے مخلص اور انسانیت سے پیار کرنے والوں کی قدر کی اور اُن کو جائز مقام دیا۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ اقوام کا زوال یک دم نہیں ہوتا، بلکہ یہ ایک تدریجی عمل ہے۔ اس عمل کے آغاز میں نوجوانوں کو بے راہ روی، بے حیائی، بد اخلاقی، زیادتی اور جارحیت کی جانب مائل کیا جاتا ہے، کیونکہ دولت و ثروت اور علم و دانش کی کثرت کے باوجود ایسی خطرناک برائیاں معاشرے کو دیمک کی طرح اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہیں۔

ہمیں نظر آتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔ اس وقت ہمیں سنجیدگی سے اپنا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی شکست صرف اُن کی شکست نہیں، بلکہ ہماری اسلامی، اخلاقی و معاشرتی اقدار کی شکست ہے، جو اس بات کا عندیہ دے رہی ہے کہ ہمارا معاشرہ بہت تیزی سے انحطاط کی جانب گامزن ہے اور اگر ہم نے ابھی سے اس کے تدارک کے لئے کچھ نہ کیا تو جلد ہی ہماری نوجوان نسل اپنے دین کی تعلیمات اور اخلاقیات سے کنارہ کشی اختیار کرلے گی اور پھر ہمیں تباہی سے کوئی نہیں بچا پائے گا۔

Check Also

Feminism Aur Hamari Jameaat

By Asad Ur Rehman