Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Imran Amin
  4. Siasi Musical Chair Mein Bari Kabhi Bhi Asakti Hai

Siasi Musical Chair Mein Bari Kabhi Bhi Asakti Hai

سیاسی میوزیکل چیئر میں باری کبھی بھی آسکتی ہے

سر زمین پاکستان پر ایک لمبے عرصے تک معصوم سسکیوں اور ناتمام حسرتوں کا رُومانس چلتا رہا ہے، جبکہ دوسری طرف اقتدار میں شراکت داری کے لیے سرگرداں اشرافیہ نے اپنی عمدہ اداکاری سے کئی عشروں تک بے چارے عوام کو بے وقوف بنائے رکھا۔ بد قسمتی سے اس بھیانک سفرکے دوران یہاں بسنے والوں کے لیے شب و روز ایک ہی انداز میں طلوع اور غروب ہوتے رہے ہیں۔ نہ کسی کی جواب دہی ہوئی، نہ سرزنش ہوئی نہ قیامت ٹوٹی اورنہ ہی کوئی پشیمان ہوا۔ بس ایک زندگی کا پہیہ تھا جو چلتا رہا اوربس چلتا رہا۔ جس میں خواص لوٹتے رہے اور عوام لُٹتے رہے۔

کہا جاتا ہے کہ حسن دیکھنے والی آنکھ میں ہوتا ہے۔ ایسا ہی بہترین نظریہ اور مثبت فکر، انسان کے دل و دماغ میں ہوتی ہے۔ خوش قسمتی سے نیا سورج ایک نئی صبح کے ساتھ طلوع ہونے جا رہا ہے اور لُٹیروں کے احتساب کا دن نزدیک آرہاہے۔ چند دن کے بعد عوام کو ایک بار پھر سے موقع مل رہا ہے کہ وہ بدکرداروں کو انجام تک پہنچائیں۔ اس موقع پر لات و منات کے بُت بڑے بڑے گرزوں سے توڑے جا سکتے ہیں چنانچہ اسی خدشے کے پیش نظر ہمارے سیاسی میدان میں ہر طرف آہ و بکا اور چیخ و پُکار سنائی دے رہی ہے۔

یاد رکھیں! زندگی کا ہر قدم ایک بہترین سبق ہوتا ہے اور زمانہ بہترین اُستاد قرار دیا جاتا ہے۔ حالات کے جبر اور عوامی شعور کی بلندی نے قیصرو کسریٰ کے خلاف طبل جنگ بجا دیا ہے اگرچہ قلت وسائل و تعداد کا سامنا ہے مگر سفر جاری ہے اور منزل قریب ہے۔ یہ سچ ہے کہ اگر خوابوں کو آنکھوں کی دہلیزکاراستہ پار نہ کرنے دیا جائے توزندگی گزارنا مشکل ہوجاتی ہے۔ کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہے کہ زندگی بدلنے کے لیے لڑنا پڑتا ہے اور آسان کرنے کے لیے سمجھنا پڑتا ہے چنانچہ جب تک منزل نہ ملے ہمت نہ ہارو اورنہ ہی ایک جگہ ٹھہروکیونکہ پہاڑ سے نکلنے والی نہروں نے آج تک راستے میں کسی سے نہیں پوچھا"سمندر کتنی دور ہے"۔

رب کائنات کا یہ اُصول رہا ہے کہ جو جیسی نیت رکھتا ہے اورجتنی محنت کرتا ہے اُس کو اسی حساب سے انعام ملتا ہے مگر صرف ایک شرط ہے کہ سمت درست اور راستے متعین ہوں۔ آج ہماری خوش قسمتی ہے کہ پاکستان کی سمت درست اور منزلوں کا تعین کیا جا چکا ہے اورمنزلوں کے حصول کے لیے جاری پیش قدمی کا سلسلہ تمام تر مشکلات کے باوجود جاری ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان سب باتوں کا کریڈٹ افواج پاکستان اور عدلیہ کو جاتا ہے۔ ہمیں اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اُس نے ہمیں کرم والے دو بندے عطا کر دئیے ہیں۔ بقول واصف علی واصفؒ "جس پر کرم ہے اُس سے کبھی پنگا نہ لینا۔ جب بھی کوئی ایسا شخص دیکھا کہ جس پر رب کا کرم تھا۔ اُسے عاجز ہی پایا۔ پوری عقل کے باوجود بالکل سیدھا سا بندہ۔ وہ بہت تیزی نہیں دکھائے گا اور نہ اُلجھائے گا۔ راستہ دے گا۔ سادہ بات کرے گا"۔

اب ہم سیاسی میدان میں جاری جنگ کی بات کریں تو پتا چلتا ہے کہ پرانی عدلیہ اور مقتدرہ سے خائف میاں نواز شریف، موجودہ عدلیہ اور مقتدرہ کی حمایت حاصل کر چکے ہیں جبکہ دوسری طرف پرانی عدلیہ اور مقتدرہ کے حمایت یافتہ عمران خان موجودہ عدلیہ اور مقتدرہ سے خائف ہیں۔ نواز شریف اپنے ماضی کے بیانیے"انتخاب نہیں احتساب" کو بھول کر چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے لیے کوشاں ہیں جبکہ چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو ایک طرف نواز شریف کو بار بار للکار رہے ہیں اور دوسری طرف پی ٹی آئی کے ووٹرز کو گلے لگانے کو بے چین ہیں۔

سربراہ قاف لیگ چوہدری شجاعت حسین نے صوبہ سندھ میں اپنی آزاد اُڑان کے پر کاٹ کر آصف زرداری کی جھولی میں ڈال دئیے ہیں یوں ان دنوں سیاسی کاریگری کے مظاہرے جاری ہیں اور یہ سلسلہ انتخابات کے بعد تک چلتا رہے گا۔ عوام ان سیاسی قائدین کا منہ دیکھ رہے ہیں جو اپنی انتخابی مہم کے دوران مستقبل میں ترقی کے بلند بانگ دعویٰ کر رہے ہیں اگرچہ یہ وہ افراد ہیں جو ہر دور میں اقتدار میں رہے یا لمبا عرصہ اقتدار میں گزارچکے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ یہ لوگ سالہا سال اقتدار میں رہنے کے باوجود پہلے بھی کچھ نہیں کر سکے تواس بار کون سا نیا تیر چلائیں گے جو عوام ان پر اعتبار کریں؟ جبکہ نئے پاکستان کے خالق پر بھروسہ کرنے کا نتیجہ بھی عوام کے سامنے ہے جس نے اداروں کی تباہی میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور عوام کو افواج پاکستان کے مقابل کھڑا کرنے کی ناکام کوشش کی۔

بانی پی ٹی آئی نے ایک بار پھر سے نئے پلان کا ذکر کر دیا ہے۔ پلان سی کی ملک گیر ناکامی کے بعد غالب امکان یہ ہے کہ وہ اس بار شاید انتخابات کے بائیکاٹ کا اعلان کر دیں اور اگر ایسا ہوا تو یقیناً یہ اعلان پی ٹی آئی اور عمران خان کے لیے اچھا ثابت نہیں ہوگا۔ پاکستانی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ ماضی میں جن سیاسی پارٹیوں نے بھی انتخابات کا بائیکاٹ کیا انہیں اس بائیکاٹ کے نتیجے میں سیاسی کامیابی کی نسبت سیاسی نقصان زیادہ ہوا۔

سیاست میں اُونچ نیچ ہوتی رہتی ہے لہذا چیئرمین پی ٹی آئی کو وقتی مشکلات سے سبق سیکھتے ہوئے سیاسی عمل میں شامل رہنا چاہیے اور ذاتی پسند اور ناپسند کے دائروں سے نکل کر وسیع سیاسی سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے کیونکہ پاکستان میں زمینی حقائق کے مطابق اقتدار کی میوزیکل چیئر کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور کسی کی باری کبھی بھی وقت آسکتی ہے۔

Check Also

Pur Aman Ehtijaj Ka Haq To Do

By Khateeb Ahmad