Monday, 29 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Imran Amin/
  4. Intikhabi Nataij Manne Ka Awami Andea, Khush Aaind Baat

Intikhabi Nataij Manne Ka Awami Andea, Khush Aaind Baat

انتخابی نتائج ماننے کا عوامی عندیہ، خوش آئند بات

عرب کے ریگزاروں میں بسنے والے ان پڑھ بدو کو جب نبی پاکﷺ نے ایک سوچ دی تو آپﷺ کی ذات مبارک پر کئی نشتر چلائے گئے اور سخت اذیتیں دی گئیں۔ مگر نبی پاکﷺ چونکہ عرب کے جاہل اور ان پڑھ افراد کی بے ترتیب زندگی کو ایک منظم زندگی میں ڈھالنا چاہتے تھے چنانچہ وسائل کی کمی اور ساتھیوں کی کمی کے باوجود لمبے عرصے کی کوشش کے بعد آپ ﷺ ان نفوس کی زندگی میں اسلامی تعلیمات کو داخل کرنے میں کامیاب ہوہی گئے۔

اُن کی کوشش اس بات کی گواہی ہے کہ قومیں سوچ، نظریے، تربیت اور نظم و ضبط کے حسین امتزاج سے ہی تخلیق پاتی ہیں مگر یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ سب عناصر ایک دم سے کسی بے ہنگم ہجوم میں پیدا نہیں ہوتے بلکہ عظیم لوگوں کی تربیت، سالوں کے اُتار چڑھاؤ اور بدلتے مزاجوں کی پیداوار ہی کسی بھی بے ہنگم ہجوم کو ایک قوم کی تشکیل دینے میں معاون ہوتی ہے۔ بد قسمتی سے ہمارا وطن پاکستان ایک ایسے خطہ زمین میں واقع ہے جہاں صدیوں تک انسان غلامی کا طوق گلے میں ڈالے پھرتے رہے ہیں۔

ہندو مذہب میں مختلف شخصیات کو دیوتاؤں کا رُوپ سمجھا جاتاہے لہذا شخصیت پرستی کی جو بد ترین شکل ہندو مذہب میں نظر آتی ہے اس کا اثر نہایت آہستگی سے برصغیر میں بسنے والی باقی اقوام میں بھی سرایت کر گیا۔ قائد اعظمؒ کی وفات کے بعد ہماری قوم کے نصیب میں طاقتور اور مفاد پرست سیاسی اور مذہبی قیادت لکھی گئی تو ان لوگوں نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد قائم رکھنے کے لیے عوام کے اندر شخصیت پرستی کے رجحان کو مزید فروغ دیا۔ اس حکمران گروہ نے پہلے اس کمزور اور محروم طبقے کو غلامی کا طوق پہنایا اور پھر گلے لگا کر اپنے اقتدار کو محفوظ بنایا۔ الیکشن 2024ء عوام کے لیے ایک ایسا موقع ہے کہ جہاں وہ ووٹ کے ذریعے اپنی نئی قیادت منتخب کر سکتے ہیں اور ایمان داری سے اپنا حق رائے دہی استعمال کرتے ہوئے شخصیت پرستی سے بھی جان چھڑا سکتے ہیں۔

ایک سیاسی جماعت کا دعویٰ ہے کہ اس کی مقبولیت سب سے زیادہ ہے لہذا اگر اُس کا کارکن ووٹ ڈالنے نکل آیا تو متوقع انتخابی نتائج بدل جائیں گے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا اس جماعت کے کارکنوں کو ووٹ ڈالنے سے روکا جائے گا تو اس کا جواب نفی میں آئے گا کیونکہ الیکشن کے دن پورے ملک میں مقامی اور عالمی میڈیا انتخابی سرگرمیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہوگا اور اگر حکومت کی جانب سے کسی جماعت کے ووٹرز کو تنگ کیا گیا تو فوری طور پر میڈیا میں رپورٹ ہوجائے گا لہذا اس بات میں کوئی شک نہیں کہ الیکشن ڈے پر ووٹرز کا ٹرن آؤٹ کسی بھی سیاسی شخصیت کی مقبولیت اور غیر مقبولیت کا راز بھی فاش کر دے گا۔

دوسری طرف حالیہ دنوں کے سروے بتاتے ہیں کہ الیکشن میں مسلم لیگ نون اکثریتی جماعت ہوگی مگر نون لیگ اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتی۔ توقع ہے کہ مسلم لیگ ایک سو کے قریب قومی اسمبلی کی سیٹیں جیتے گی مگر مسلم لیگ کو دوسری جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانی پڑے گی جس میں وزیر اعظم کے لیے میاں نواز شریف فیورٹ ہیں۔ اس بات میں شک نہیں کہ میاں نواز شریف نے سیاست میں آنے کے کئی سال بعد جب سیاسی نشیب و فراز کو سمجھنا شروع کیاتو پھر معاملہ فہمی سے کام لیتے ہوئے ہمیشہ اپنے سیاسی رقیبوں کے ساتھ روابط بڑھانے کی کوشش کی۔ میاں صاحب نے ماضی میں بے نظیر بھٹو کے ساتھ میثاق جمہوریت کیا اور اُن کی شہادت پر شدید خطرات کے باوجودہسپتال پہنچ گئے۔

عمران خان سے ملنے اُن کے گھر گئے اور جب انتخابی مہم کے دوران چیئرمین پی ٹی آئی سٹیج سے گرے تو ہسپتال جا کر عیادت کی۔ اس پس منظر کے بعد بظاہر میاں نواز شریف وزارت عظمیٰ کے لیے موزوں دکھائی دیتے ہیں اور ایسا خیال کیا جاتا ہے کہ وہ موجودہ سیاسی کشیدگی کو کم کرنے میں اپنا فعال کردار ادا کرتے ہوئے ملک کو سیاسی استحکام اور معاشی ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ اس موقع پر یہ بات بہت اہم ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟ عمران خان اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں اب تک ابتدائی عدالتوں سے سزائیں ہوئی ہیں اور ابھی اپیلوں کے لیے انتہائی عدالتیں موجود ہیں جہاں سے انہیں ریلیف بھی مل سکتا ہے

ایک بات واضح ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی اگلے چند سال تک سیاسی میدان سے آؤٹ رہیں گے اور یوں اُن کی غیر موجودگی کے سبب ملک میں بڑھتی سیاسی کشیدگی اور عوامی شدت پسندی کا رجحان کم ہو جائے گا۔ سیاسی میدان کی تلخیوں اور طوفانی ہواؤں میں آئی پی ایس او ایس کا انتخابات2024ء کی شفافیت سے متعلق، پاکستان پلس سروے کے نتائج بہت حوصلہ افزاء ہیں ان نتائج نے الیکشن کی شفافیت پر بولنے والے کچھ ناقدین کے منہ بند کر دئیے ہیں۔ اس سروے کے اعداد و شمار کے مطابق 76% پاکستانی عوام کو انتخابات کی شفافیت پر یقین ہے اور نتائج قابل قبول ہونگے۔

دیہی علاقوں میں یہ شرح 77% اور شہری علاقوں میں % 74ہے۔ اس سروے کے اعداد و شمار میں انتشار پھیلانے والی قوتوں کے لیے مایوسی کے سوا اور کچھ نہیں ہے کیونکہ کئی ہفتوں سے ملک دشمن قوتیں ایک خاص ایجنڈے کے تحت ان انتخابات کو مشکوک بنانے کے درپے رہیں اور عوام کی ذہن سازی اس انداز میں کی جارہی تھی کہ وہ ان انتخابات کے نتائج نہ مانیں مگر غیور عوام کی اکثریت نے ثابت کیا کہ انہیں اپنے اداروں پر اعتماد ہے اور وہ اُن کی زیر سرپرستی منعقد ہونے والے انتخابات کے نتائج مانتے ہیں۔

Check Also

Pyara Herry

By Saira Kanwal