Imran Khan Aur Buck Duke
عمران خان اُور بک ڈیوک
امریکہ کی خانہ جنگی کے اختتام پر وہاں کے حالات انتہائی بُرے تھے۔ امریکیوں کے لیے تلخی اُورتکلیف کے دن تھے۔ ہر طرف ویرانی اُور بھوک ناچ رہی تھی۔ کاروبار بند تھا اُورکھیت اُجڑ چکے تھے۔ اس خانہ جنگی میں واشنگٹن ڈیوک جنرل لی کی قیادت میں لڑا۔ جنرل لی کے ہتھیار ڈال دینے کے بعد ایک عرصہ قید کی صعوبتیں برداشت کرنے کے بعدجب واشنگٹن ڈیوک واپس اپنے علاقے میں آیا تو اُس کے اُجڑے اُور ویران کھیتوں میں صرف ایک فصل باقی بچی تھی اُور وہ تھی تمباکو کی فصل۔ واشنگٹن ڈیوک نے تمباکو کی فصل کاٹی، خشک کی اُورگاڑی میں لاد کر اپنے بچوں کے ساتھ دنیا فتح کرنے نکل پڑا۔ وہ تمباکو کی گاڑی لے کر جنوب کی طرف چل پڑا جہاں اُس کی معلومات کے مطابق تمباکو کی کمی تھی۔ وہاں اُس نے لوگوں سے تمباکو کے بدلے میں گوشت اُور کپاس لی۔ رات کوسارے خاندان نے ستاروں کی چھاؤں تلے سڑک کے کنارے گوشت اُور آلو بھون کر کھائے اُور لمبی تان کر سُو گئے۔ اس کام میں اُنہیں بہت مزا آیا اُور یوں تمباکو کے کاروبار کو مستقل کرنے کا ارادہ کر لیا گیا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں دیگر تمباکو کی کمپنیوں کی جانب سے سخت مقابلہ کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ واشنگٹن ڈیوک کے بیٹے نے امریکی تمباکو کی دنیا میں کچھ نیا کرنے کا سوچا اُورتب اُس نے سگریٹ بنانے کا غیر معمولی فیصلہ کیا۔ ممکن ہے کہ آج یہ خیال اتنا منفرد اُوردلچسپ نہ لگے لیکن 1881ء میں یہ بات نئی تھی۔ امریکہ اُس وقت تک سگریٹ سے ناآشنا تھا۔ جب بک ڈیوک نے سگریٹ بنانے شروع کیے تو اُس وقت سگریٹ ہاتھ سے بنائے جاتے تھے۔ بعد میں وہ سگریٹ بنانے والی مشین لے آیا جس سے اُس کے کاروبار میں بے پناہ وسعت آگئی۔ وہ صبح سے شام تک اپنی فیکٹری میں موجود رہتا اُور تمام کام کی براہ راست نگرانی کرتا اُور یوں اُس نے بے پناہ دولت اکٹھی کی۔ اُسے امریکہ میں تمباکو کا شہنشاہ کہا جاتا ہے۔ جب وہ مرا تو 20,000,000 پاؤنڈ چھوڑ گیا تھا۔ وہ اس بات پرہمیشہ فخر کیا کرتا تھا کہ اُس نے امریکہ میں سب سے زیادہ لکھ پتی بنائے ہیں۔ لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ بک ڈیوک فقط چار یا پانچ برس سکول گیاتھا۔ ایک دفعہ اُس نے کہا تھا"کالج کی تعلیم مبلغوں اُور وکیلوں کے لیے تو ٹھیک ہے لیکن مجھے اس سے کیا فائدہ پہنچنا تھا؟ "۔ بک ڈیوک اکثراپنی کامیابی کی وضاحت کچھ اس طرح کرتا تھا "میں کاروبار میں اس لیے کامیاب نہیں ہوا کہ مجھ میں دُوسروں سے زیادہ کاروباری صلاحیت یا ذہانت ہے بلکہ میں نے فقط دُوسروں سے زیادہ محنت کی ہے۔ میں نے اپنے سے زیادہ صلاحیتوں والے لوگوں کو کاروبار میں ناکام ہوتے دیکھا ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ اُن میں قوت ارادی نہیں تھی"۔ ایک انٹرویو میں اُس سے پوچھا گیا کہ"مسٹر ڈیوک" کیااتنی دولت آپ کے لیے باعث اطمینان ہے؟ بک ڈیوک نے اپنے سر کو زور سے جھٹکا دے کر جواب دیا"نہیں ہرگز نہیں"۔
ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز بھی بے سروسامانی کی حالت میں کیا تھا۔ ملک میں موجود دُو پارٹی نظام میں کسی نئی تیسری جماعت کی جگہ نہیں بنتی تھی۔ مشکل اُور دلیرفیصلے کے علاوہ سیاست کے راہ گزربھی خطرناک تھے جہاں جان بھی محفوظ نہیں تھی مگر مضبوط قوت ارادی کے ساتھ عمران خان نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ ابتدا کے سفر میں مشکلات آئیں کئی ساتھی آئے ساتھ چلے پھرساتھ چھوڑ گئے اسی طرح نئے لوگ بھی آتے رہے اُور یوں یہ قافلہ جانب منزل بڑھتا رہا۔ اس ملک کی آزادی کے بعد سے اب تک مختلف جماعتوں کی طرف سے تسلسل کے ساتھ معصوم پاکستانی عوام کو کرپشن کے خاتمے، میرٹ کی بحالی، انصاف کی رسائی، تعلیم سب کا حق اُورصحت کی فراہمی کے جھوٹے خواب دکھائے جا رہے تھے۔ تب کپتان نے کچھ نیا کرنے کا سوچا۔ عمران خان نے ان خوابوں کی حقیقت عوام کے سامنے آشکار کر دی اُور لوگوں کو بتایا کہ موجودہ سیاسی اشرافیہ صرف ذاتی مفادات کی غلام ہے، ان کے ایجنڈے میں عوام کو فلاح و بہبود پہنچاناشامل ہی نہیں ہے نیزاُن کی آپس کی لڑائی بھی صرف عوام کو دکھانے کے لیے ہے ورنہ یہ سب اندر سے ایک ہیں۔ ایسی صورت حال میں کپتان ہی انصاف کی بحالی، میرٹ کی پاسداری، کرپشن کا خاتمہ، حصول تعلیم تک رسائی، صحت کا بہترین نظام، لاقانونیت کو لگام اُورڈاکو لٹیرے کا احتساب یقینی بناسکتا ہے کیونکہ اُس کا جینا اُور مرنا پاکستان کے لیے ہے، نہ اُس کابیرون ملک سرمایہ ہے نہ اُس کا کوئی کارخانہ ہے اُور نہ ہی کوئی سیاسی جانشین ہے۔ بس پھر کیا تھاہر طرف خطرے کی گھنٹیاں بج اُٹھی۔
پُرانے سیاست دان اکٹھے ہو گئے، نئے اتحاد وجود میں آگئے، نئی شراکت داریاں ہونے لگی، نئی مفاہمتی یادداشتیں لکھی جانے لگی مگرتب تک عمران خان ہٹ ہو گیا بلکہ سپر ہٹ ہو گیاتھا۔ وزیر اعظم بننے کے بعد جب عمران خان کو کام کرنا پڑا تو عوام کو پہلی بار اندازہ ہوا کہ وہ اتنا سمارٹ بھی نہیں، ذہین بھی نہیں، مالی طور پر مستحکم بھی نہیں ہے مگر سوال یہ ہے کہ پھر وہ کامیاب کیسے ہو گیا؟ اُس کا سیدھا ساجواب ہے "محنت، محنت اُور صرف زیادہ محنت"۔ مضبوط قوت ارادی کے ساتھ اپنے مقصد کے حصول کے لیے وزیر اعظم ہاؤس میں بیٹھ کراٹھارہ اٹھارہ گھنٹے مسلسل محنت کرنا ہی اس کی کامیابی ہے۔ آج اُس نے عوامی دولت کے لٹیروں کے گرد جس طرح کامیابی سے گھیرا تنگ کیا ہوا ہے اُور اقتدار کے معتبر حلقوں میں عزت کا مقام حاصل کیا ہوا ہے اس میں اُس کی لگن اُور محنت کا بڑاہاتھ ہے۔
یاد رکھیں! زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کا ایک ہی گُر ہے اُور وہ ہے محنت۔ دنیا میں جس نے محنت کی قدرت نے اُسے کامیابی عطا کی۔ ہم میں سے اکثر لوگ زندگی کی دوڑ میں بغیر محنت کے سر خرو ہونا چاہتے ہیں جو دراصل ناکامی کا راستہ ہے۔ آؤ سب پاکستانیو! ہم یہ عہد کریں کہ آج سے محنت ہی ہمارا اُوڑھنا بچھونا ہو گا، ہم اب سے کسی شارٹ کٹ کو تلاش نہیں کریں گے۔