Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Imran Amin
  4. Awam Ke Faisle Ka Waqt Aan Pohancha

Awam Ke Faisle Ka Waqt Aan Pohancha

عوام کے فیصلے کا وقت آن پہنچا

ہمارے ہاں ایک پارٹی نے احتساب کا نعرہ لگایا اُور اقتدار پایا جبکہ دوسری پارٹیوں نے اپنے ماضی کے کارنامے گنوائے اُور عوام سے جوتے کھائے۔ اس بارقیادت نئی ہے مگر ساتھ میں وہی سیاسی بھانڈ، ابن الوقت اور مالشیے، جوکبھی اس تھالی کے بینگن اُور کبھی اُس تھالی کے۔ آج ادھر سر تسلیم خم اور کل اُدھرویلکم (Welcome)۔ مگراس بارایک بات تو طے ہے کہ جس نے بھی بہتی گنگا سے ہاتھ دھوئے ہیں وہ اپنے کیے کی سزا پاکر رہے گا۔ اب تک موجودہ حکومت نے بیرونی دنیا کی چالوں کو توکامیابی سے بے نقاب کر تے ہوئے ناکام کیا ہے مگرذہن میں رہے کہ اصل خطرہ اندرونی سازشوں اُورسازشیوں سے ہے۔ سازشی افراد اپنے ذاتی مفادات کے لیے دشمنوں کی زبان بولتے اُور اُن کے لکھے ہوئے سکرپٹ پر عمدہ اداکاری بھی کرتے نظر آتے ہیں۔ انفرادی سوچ اور منافقانہ کردار کے حامل ان سیاست دانوں کو اُن کے کردہ گناہوں کی سزا دے کرآئندہ کے لیے چور بازاری کا سلسلہ بند کرنا موجودہ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔

ان اندرونی گروہ آف ٹھگزکا ایک ہی مطالبہ ہے کہ ایک باربلا مشروط معافی مل جائے پھر وہ ذاتی حیثیت میں سیاست کو خیر آباد کہہ دیں گے مگر کپتان کا وعدہ "میں ان کو رُلاؤں گا"، "پائی پائی کا حساب لوں گا"، "این آر اُو نہیں دوں گا"۔ اپنی جگہ پر ابھی تک موجود ہے۔ موروثیت کی بنیادوں پر قائم جمہوریت کاڈرامہ اپنے عروج پر ہے اُور باہر بیٹھے تماشائی یعنی عوام اپنے ایک ایک پیسے کا حساب لینے کو بے قرار ہیں۔ غیور عوام جانتے ہیں کہ ماضی میں ہونے والی کرپشن پر جیت چوروں کی تھی اُور عوام کے حصے میں ہار لکھ دی گئی لیکن اس بارہار چوروں کی ہے اُور جیت عوام کی ہوگی۔ ڈالر دی اُچی شان، گیس بجلی تے پٹرول داطوفان، چینی تے آٹے کا فقدان، ہوئیاں نیں گلیاں سنسان، میدان وچ کھلوتااے کپتان، گل وچ پا کے کرپان۔ یاد رکھیں!اے کم نہی آسان۔

وزیر اعظم کے عزم کو دیکھتے ہوئے اپوزیشن قیادت میں شامل کرپشن میں لتھڑے، عدالتوں سے سزا یافتہ، کمیشن ایجنٹ، ٹی ٹی مافیا، بے نامی اکاؤنٹس والے بوکھلا گئے ہیں چند ہفتوں سے جاری اپوزیشن کے احتجاج میں ملک دشمن ایجنڈا نمایاں نظر آنے لگا ہے چند پیروکاران میر صادق و میر جعفر کے مکروہ چہرے بھی عوام کے سامنے آگئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ زر خرید غلامان شریف خاندان ہوسکتے ہیں مگر قائد اعظم کی مسلم لیگ کے کارکن نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ مسلم لیگی کارکن اپنے قائد کے وطن سے کھلواڑ کرنے والوں کو تحفظ نہیں دیتا اُور اپنے ملک و فوج کے خلاف بات کرنے والوں کی زبان کھینچ لیتا ہے۔ یہ ہے غضب جہاں کی عجب کہانی، جہاں چور بھی بولے "چور چور چور"۔ اب فیصلہ عوام نے کرنا ہے کہ ایسے لیڈر جن کا کاروبار، اُولاد اُورجینا مرنا باہر کے ممالک میں ہووہ کس طرح اس ملک کے عوام کی خدمت کا دعوی کر سکتے ہیں۔ یہ تو صریحاً ایک دھوکا ہے جس میں ہماری معصوم عوام پچھلی کئی دہایؤں سے گرفتار تھی اب اس دھوکے کی قیمت اداروں کی تباہی کی صورت میں عوام کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔

ایک سابق وزیر اعظم کے دو بیٹے عدالتی مفرور ہیں۔ اُس کی بیٹی کا سُسر عدالت کی طرف سے اشتہاری ہونے پر ملک سے بھاگا ہوا ہے، ایک بیٹی عدالت سے سزا یافتہ ہے اُور موصوف خود بھی عدالت سے مجرم قرار دئیے جا چکے ہیں جبکہ ایک صاحب جو خادم اعلیٰ کہلانا زیادہ پسند کرتے ہیں اُن کا ایک بیٹا اُور داماد اس ملک کی عدالتوں سے بھاگے ہوئے ہیں، بیوی کو بھی عدالتی بلاوہ آگیا ہے خود نیب کی تحویل میں اُور دوسرا بیٹا بھی عدالتوں کے چکروں میں ہے۔ اربوں روپے کی کرپشن، بے نامی اکاؤنٹس اُور منی لانڈرنگ کے کیسز، عدالتوں میں چل رہے ہیں اُور عنقریب فیصلے ہونے والے ہیں ایسے میں اپوزیشن کواین آر اُو ہی واحد نجات کا ذریعہ نظر آتا ہے وگرنہ دوسری صورت میں اداروں سے تصادم۔"اللہ جانے کون بشر ہے، سامنے میدان حشر ہے"۔ حشر نشر جاری ہے فجر تک۔ جب تک نئی صبح طلوع نہیں ہو جاتی، یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ ایک بات طے ہے کہ اب ہر محب وطن پاکستانی کا کام شروع ہوجاتا ہے ایسے مشکل وقت میں عوام نے اپنی ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے فیصلہ کرنا ہے کہ کیا ہم نے اندھیروں سے نکل کر روشنی میں سفر کرنا ہے؟ ۔

کیا ہم اپنے فیصلے خود کریں گے یا ایک مخصوس ٹولے کے فیصلوں پر آمین کہیں گے؟ ملک میں لوٹ کھسوٹ کا نظام چلے گا یا مدینہ کی ریاست عمل میں لانی ہے؟ دنیا میں سر بلند کر کے جینا ہے یا سر جھکا کے؟ کیا سبز پاسپورٹ کی عزت بحال کروانی ہے؟ یاد رکھیں! اب ہم میں سے ہر شخص کو اپنے ملک کے استحکام اور سلامتی کے لیے کوشش کرنی پڑے گی تاکہ یہ سلطنت اتنی مضبوط و مستحکم ہو جائے کہ دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی بُری نیت سے ہماری طرف نہ دیکھے۔ اگر ہم ان مسائل سے نکلنا چاہتے ہیں توہمیں اپنے سینوں کواُسی حرارت ایمانی سے معمور کرنا ہو گا جس سے ہمارے اسلاف آشنا تھے اُور اپنے قومی وجود کو ویسے ہی با عظمت اور پُر جلال ثابت کرنا ہو گا جیسے کبھی ہمارے اسلاف نے قرون اولیٰ میں کیا تھا۔

آج کے حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ وہ قوم جسکا آفتاب کبھی عرب کے ریگ زاروں سے اُبھراتھا اور جس نے کائنات کے ذرے ذرے کو درس مساوات دیا تھاایک بار پھر آگے بڑھے اوراس آڑے وقت میں اپنے لوگوں کے ساتھ ساتھ دنیا کی رہنمائی بھی کرے تاکہ ساری دنیا اس اُبھرتے سورج کی تمازت سے اپنے پراگندہ خیال معاشروں کو پاک کرنے کی کامیاب کوشش کرے۔ انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب دنیا میں ہم ایک باوقار قوم کی حیثیت سے جانے جائیں گے اگر ہم صرف اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں تو پھرکامیابی لازم ہے۔ یہ وقت نہیں ہے ڈرنے کا، یہ وقت ہے آگے بڑھنے کا، وطن کو بچانے کا۔

Check Also

Jab Aik Aurat Muhabbat Karti Hai

By Mahmood Fiaz