Thursday, 28 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ilyas Kabeer
  4. Urdu Afsane Mein Nafsiyati Haqiqat Nigari

Urdu Afsane Mein Nafsiyati Haqiqat Nigari

اردو افسانے میں نفسیاتی حقیقت نگاری

نئے نقاد ڈاکٹر محمد نصراللہ کا اردو تنقید میں پہلا پڑاؤ "اردو میں ہئیتی تنقید" میں تھا۔ جس میں انھوں نے تنقید کے معانی و مفاہیم وضع کرتے ہوئے ہئیتی تنقید کی مبادیات پر بات کی تھی۔ مزید برآں مغرب میں ہئیتی تنقید کا ارتقا، نئی تنقید/ امریکی ہئیتی تنقید کو تفصیل سے بیان کیا۔ اس کتاب کے نمایاں، اہم اور کلیدی ابواب" اردو میں ہئیتی تنقید کے نظری مباحث"، "اردو میں ہئیتی تنقید کی عملی جہات" اور "اردو میں ہئیتی تنقید پر اعتراضات کا جائزہ" ہیں۔

متذکرہ بالا کتاب میں وہ ایک ایسے نوجوان نقاد کے طور پر سامنے آئے تھے جس کا مطمح نظر تنقید جیسی معتوب صنف میں معجز بیانی کی بدولت نیک نامی کا حصول ہے۔ انھوں نے ابتدا ہی میں اپنے شفیق استاد ناصر عباس نیر کی اس بات کو اپنے اندر جذب کر لیا تھا:

"نقاد بننے کا فیصلہ کرکے تم نے کچھ ذمہ داریاں اپنے لیے لازم کر لی ہیں: سوچنا، سوال اٹھانا، متن سے کلام کرنا، متن کے دوسرے متون سے جاری کلام کو سننا اور پھر جرآت سے لکھنا، مگر شائستگی اور دلیل کا دامن ایک پل کے لیے ہاتھ سے نہ جانے دینا۔ تم ان نقادوں کی طرف پر شوق نگاہوں سے مت دیکھنا جن کے پاس دلیل ہے، لیکن شائستگی نہیں اور اگر شائستگی ہے تو دلیل نہیں۔ جو نقاد کسی سابق ادیب یا ہم عصر کی ذلت میں خوشی اور فخر محسوس کرے خواہ اس کے بیان میں کتنی ہی کاٹ ہو، اور اس نے دلائل گھڑنے کی کتنی ہی کوشش کی ہو، اسے دور سے سلام کرنا۔ دوسروں کی ذلت کی خواہش، جواز اور دلیل گھڑ لیتی ہے، اسے پہچاننے میں دیر اور غلطی نہ کرنا۔ "

درج بالا اقتباس کے ایک ایک لفظ میں ہر نئے نقاد کو تہذیب، شائستگی اور سوال قائم کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ سو ڈاکٹر نصراللہ نے یہ بات اپنے لیے حرز جان بنا لی۔ چناں چہ زیر نظر کتاب میں انھوں نے اپنی مطالعاتی سنجیدگی کو توسیع دی۔ نتیجے کے طور پر اردو افسانے کی تنقید پر ایک اہم کتاب منظر عام پر آئی۔

اس کتاب کے کئی اختصاصی پہلو ہیں۔ مثال کے طور اس کا روشن پہلو یہ ہے کہ یہ ان کے سندی مقالے کی کتابی صورت ہے لیکن روشن پہلو اس کی دوسری سمت میں نظر آتا ہے۔ وہ یہ کہ انھوں نے یہ تحقیق اپنے روشن فکر استاد ناصر عباس نیر کی رہنمائی میں مکمل کی ہے اور وہ اس رہنمائی پر شرمندہ اور سراسیمہ ہونے کے بجائے شاداں و فرحاں اور نازاں ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان میں اپنے عظیم استاد کا عکس نظر آتا ہے۔ وہی عجز و انکسار اور کچھ نیا کر گزرنے کا ولولہ و جستجو۔

اردو افسانے کی متعدد زاویوں سے تفہیمات اور تعبیرات ہو چکی ہیں۔ اس عمل میں افسانے کو سمجھنے کی نئی شکل و صورت سامنے آئی۔ اس سے قبل اردو افسانے کو سیاسی، سماجی، اشتراکی اور جادوئی حقیقت نگاری کے ذیل میں دیکھا گیا ہے۔ یہ کتاب حقیقت نگاری کی یکسر نئی جہت نفسیاتی ہے۔

ڈاکٹر نصراللہ کو ادب اور نفسیات کے سمبندھ کا مطالعاتی اشتیاق طالب علمی دور سے ہی ہوگیا تھا۔ جس کا اظہار زیر نظر کتاب کے پیش لفظ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر نیر کے تلمذ نے ان کے اس ذوق کی آبیاری روایتی دیانت داری سے کی اور بالآخر یہی موضوع ان کی سندی تحقیق کی تشنگی بڑھانے میں ممد و معاون ثابت ہوا۔

ڈاکٹر نصراللہ نے اپنی کتاب "اردو افسانے میں نفسیاتی حقیقت نگاری" میں عالمی ادب کی منتخب کردہ افسانوی مثالوں کے ساتھ ساتھ اردو افسانے کی قریب قریب پوری روایت کا احاطہ اپنی تحقیق کی روشنی میں کیا ہے۔ انھوں نے محض کسی افسانوی کردار میں پائی جانے والی نفسیاتی حقیقت کا کھوج نہیں لگایا بلکہ اس کا تانا بانا عالمی افسانے میں موجود کرداروں کی نفسی اور لاشعوری کیفیات میں بھی تلاش کیا ہے۔

ڈاکٹر نصراللہ کی زیر بحث کتاب کا اجمالی جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے لیے انھوں نے ژرف نگہی، سنجیدگی اور تنقیدی شعور کا خصوصی التزام کیا ہے۔

یہ کتاب چھ ابواب پر مشتمل ہے۔ (یاد رہے کہ ان ابواب میں محاکمہ شامل نہیں۔ حالاں کہ اسے باب کے طور پر شامل کرنے کا چلن عام ہے)۔

کتاب کا پہلا باب "نفسیاتی حقیقت نگاری اور حقیقت نگاری کی اقسام" کا احاطہ کرتا ہے۔ جس میں مصنف نے حقیقت نگاری کے بنیادی مباحث سے اپنی بات کا آغاز کرتے ہوئے حقیقت نگاری کی چند اہم اور نمایاں اقسام کا نظری اور اطلاقی ہر دو حوالوں سے تفصیلی جائزہ لیا ہے۔ اسی باب میں انھوں نے اساطیر میں نفسیاتی حقائق کو بھی تنقیدی زاویہ نظر سے دیکھا ہے۔ اس ضمن میں اساطیر کی مبادیات چھیڑتے ہوئے مصری، ہندوستانی اور یونانی اساطیر کی صرف اسم شماری ہی نہیں کی بلکہ ان کے تخلیقی متون تک بھی رسائی حاصل کی ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر نصراللہ نے عالمی افسانے میں نفسیاتی حقیقت نگاری پر بھی ایک ذیلی باب قائم کیا ہے۔ جس میں دنیا بھر کے چند منتخب ممتاز کہانی کاروں کی موضوع سے علاقہ رکھنے والی کہانیوں پر نقد و نظر کیا ہے۔

کتاب کا دوسرا باب "ابتدائی اردو افسانے میں نفسیاتی حقیقت نگاری" کے عنوان سے قائم کیا ہے۔ اس میں مصنف نے رومانویت سے اثر پذیری قبول کرنے والے افسانہ نگاروں سجاد حیدر یلدرم، نیاز فتح پوری، مجنوں گورکھپوری، حجاب امتیاز علی، مرزا ادیب، قاضی عبدالغفار اور پریم چند جیسے مہان کہانی کاروں کی رومانوی تخلیقات میں پائی جانے والی نفسیاتی حقیقت نگاری کی نشاندہی تخلیقی متون کے ذریعے کی ہے۔

کتاب کا تیسرا باب "ترقی پسند افسانے میں نفسیاتی حقیقت نگاری" جب کہ "جدید اردو افسانے میں نفسیاتی حقیقت نگاری" چوتھا باب ہے۔ یہ باب مزید دو ذیلی ابواب "60 کی دہائی میں جدید اردو افسانہ" اور "70 کی دہائی میں جدید اردو افسانہ" میں منقسم ہے۔

اس کتاب کا پانچواں باب "مابعد جدید اردو افسانے میں نفسیاتی حقیقت نگاری" اور چھٹے باب کو "غیر وابستہ اردو افسانے میں نفسیاتی حقیقت نگاری" کا نام دیا گیا ہے۔

ڈاکٹر نصراللہ کی یہ کتاب ان کے نفسیاتی فہم و ادراک کا اس طور اظہار کرتی ہے کہ جس سے ان کا فکشنیاتی ذوق ماند نہیں پڑتا بلکہ اسے مزید جلا ملتی ہے۔ جس کی بدولت اردو افسانے کا قاری اور نقاد داد و تحسین کیے بغیر نہیں رہ سکتا اور یہ بہرحال کسی بھی متن اور اس کے مصنف کے لیے نہایت خوش کن خبر ہے۔

ڈاکٹر محمد نصراللہ کی یہ کتاب سنگ میل پبلی کیشنز لاہور نے شائع کی ہے۔ یہ ادارہ تنقیدی کتب کو بھی طابعانہ حسن کاری سے مزین کرتا ہے۔

Check Also

Aik Sach

By Kashaf Mughal