To Phir Kya Khayal Hai
تو پھر کیا خیال ہے
بھارت کا مقبول ترین مزاحیہ پروگرام کیپل شرما شو رات نوبجے لگتا تھا۔ اس کے علاوہ ان کے دیگر مقبول پروگرام بھی زیادہ سے زیادہ گیارہ بجے تک ختم ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح خطے میں دیگر ممالک بنگلہ دیش، چین ایران وغیرہ میں یا دنیا کے باقی ملکوں میں بھی ٹی وی کا پرائم ٹائم رات آٹھ سے دس بجے تک ہی تصور ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس کے بعد لوگوں نے آرام کرنا ہوتا ہے۔
دنیا کے مشہور بڑے شہروں میں رات آٹھ بجے ہو کا عالم ہوتا ہے۔ صرف بیکریاں، ریستوران اور ہسپتال کھلے ہوتے ہیں، کیوں باقی ساری دنیا کے لوگ جلد سوتے ہیں جلد اٹھتے ہیں۔ صبح جلدی کام شروع کرتے ہیں۔ سورج کی روشنی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اب دیکھیں ہمارے سارے مشہور اور لوگوں کے پسندیدہ پروگرام گیارہ بجے لگتے ہیں بارہ بجے ختم ہوتے ہی۔
نتیجتاً لوگ دیر سے سوتے ہیں۔ جنہیں دفتر جانے کی مجبوری ہوتی ہے وہ تو گرتے پڑتے صبح جلدی اٹھ جاتے ہیں مگر ظاہر ہے کہ کام ہرگز تازہ دم نہیں پہنچتے۔ کام پر پہنچ کر بھی سستی غالب ہوتی ہے۔ پوری توجہ کام کو نہیں دے پاتے وقت ضائع ہوتا ہے۔ جن لوگوں کی دکانیں وغیرہ ہیں وہ تو گیارہ بجے اٹھتے ہیں بارہ بجے گھر سے نکلتے ہیں۔
کراچی مارکیٹوں کا زیادہ برا حال ہے۔ وہاں تو دو بجے بازار کھلنا شروع ہوتے ہیں دوپہر کا کھانا کھانے کے لیے ریستوران کی تلاش ایک معمہ ہے کہ لوگ دو بجے ناشتہ کرکے دکانوں پر آتے ہیں۔ کیا خیال ہے کہ فطرت کے خلاف معمول بنا کر ہمارا جسم صحت مند اور ذہن پرسکون رہ سکتا ہے؟ ہمیں یقین ہے کہ اگر کوئی جامعہ پاکستانی لوگوں میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت اور بے چینی کی وجوہات پر کوئی تحقیقی کام کروائے تو اس کے بڑے اوامر میں سے ایک یہ غیر فطری معمول بھی ہوگا۔
عروج و زوال کے کچھ اصول دائمی اور آفاقی ہیں۔ ان میں سے ایک سحر خیزی بھی ہے۔ اور اس کے لیے کسی قسم کے وسائل یا انفراسٹرکچر کی بھی ضرورت نہیں۔ بس ہم نے مل ایک ماحول بنانا ہے اور ذرا سی قوت ارادی۔ سرکار نے رات جلد بازار بند کرنے کا حکم نامہ جاری کیا تھا۔ اسے مستقل کر دیا جائے۔ اور پیمرا سے کہیں وہ چینلز کو گیارہ بجے پرائم پروگرام ختم کرنے کا پابند کریں۔
تاکہ سب لوگ گیارہ بجے سونے کے عادی ہیں صبح آٹھ بجے یا زیادہ سے زیادہ نو بجے سب بازار کھل جائیں۔ ہمیں یقین ہے کہ صرف اس ایک عادت سے ہی جہاں بہت سی بجلی کی بچت ہوگی اور ہماری مجموعی پیداواری صلاحیت میں بہتری آئے گی وہیں پر ہمارے بہت نفسیاتی اور جسمانی عوارض کا تدارک بھی ہوگا۔ تو پھر کیا خیال ہے، دوستو۔