Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. To Chalein Turkey (9)

To Chalein Turkey (9)

تو چلیں ترکی؟ (9)

کھانا کھانے کے بعد ہمارا ارادہ تھا کہ ترکی کے ان انجینئر دوستوں سے رابطہ کیا جائے جن سے ہمارا تعارف "لنکڈ ان" کے ذریعہ سے ہوا تھا۔ میٹلرجی کی فیلڈ سے ہی متعلق یہ دوست ترکی کے مختلف شہروں میں بڑی چھوٹی فیکٹریوں میں کام کرتے تھے اور اپنے کام کے متعلق تصاویر اور دیگر معلومات لنکڈ ان پر شئیر کیا کرتے رہتے تھے۔ ایک آدھ کال کے بعد ہی ہم نے محسوس کیا کہ یہ سیاحوں سے کھچاکھچ یہ پرشور ریستوران۔

اس کام کے لیے ہرگز موزوں جگہ نہیں۔ تب ہم وہاں سے اٹھے اور تکسیم سکوائر میں موجود ایک سرسبز قطعہ پر گھاس پر آکر بیٹھ گئے۔ ارد گرد دیگر ملکوں کے اور بھی لوگ ٹولیوں کی صورت بیٹھے گپیں لگا رہے تھے۔ ہم نے ابھی انقرہ میں موجود ایک بہت بڑی ایلومینیم ونڈو سیکشن بنانے والی فیکٹری کی پروڈکشن مینجر کا نمبر ملایا ہی تھا کہ ایک منحنی سے درمیانے قد کے صاحب جو جینز اور سفید قمیض میں ملبوس تھے آن وارد ہوئے اور آتے ہی مصافحہ کے لیے ہاتھ بڑھاتے ہوئے سلام کیا۔ اور ششتہ انگریزی میں تعارف کرواتے ہوئے بولا

میں، ۔ سلمان ہوں آپ پاکستان سے ہیں نا۔

جی میں پاکستان سے

اسلام آباد سے

نہیں لاہور سے

میرا بھائی اسلام آباد میں ایک کمپنی میں ملازمت کرتا ہے۔

اچھا لگا جان کر ہم نے رسما کہا

میرا بھائی وہاں ترکی سفارت خانے میں ہے۔ آپ کو کوئی کام ہو تو آپ بلاجھجھک اس سے رابطہ کر سکتے ہیں۔

ہم اس سے جان چھڑانا چاہتے تھے کہ یہ جائے اور ہم اپنا کام کریں، مگر وہ تو شاید ہم سے دوستی کرنے کے ارادے سے آیا تھا۔ بولا

آپ پہلی بار ترکی آئے ہیں؟

جی سر

آپ کو یہاں گائیڈ چاہیے تو میں آپ کی خدمت کرسکتا ہو

نہیں سر آپ کی بڑی مہربانی میرے یہاں بہت سے مقامی دوست ہیں۔

اسی طرح کی تھوڑی سی مزید رسمی گفتگو کے بعد وہ اصل مدعا کی طرف آیا

سر یہاں قریب ہی ہمارا ٹھکانہ ہے۔ وہاں بہت ہی خوبصورت لڑکیاں ہیں، آپ سے دوستی کی منتظر ہیں۔ آپ چلیں میرے ساتھ میں آپ کا تعارف کرواتا ہوں ان سے ہمیں تو جھرجھری سی آجاتی لڑکیوں کے نام سے فوراً معذرت کی کہ بھائی ہم پاکستان سے ضرور ہیں، مگر ہمارا قومی کھیل ہاکی ہے۔ لڑکیوں سے دوستی نہیں مگر وہ بضد رہا، کہ بس پانچ منٹ کے پیدل فاصلے پر ہیں آپ چلیں تو۔

اب ہم نے سختی سے انکار کیا اور وہاں سے جانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔ اپنا متوقع گاہک یا شاید شکار ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر وہ اور بھی جارحانہ ہو گیا۔ اس نے ہمارا ہاتھ پکڑ لیا اور باقاعدہ کھینچتے ہوئے ہمیں قائل کرنے لگا۔ کہ پانچ منٹ کے لئے چلے چلیں۔ ارد گرد بہت سے لوگ تھے ایسا نہیں تھا کہ وہ ہمیں کوئی نقصان پہنچاسکتا تھا یا چھینا جھپٹی کرسکتا تھا۔ لیکن اس کا یہ فعل ہمارے ساتھ لیے سخت ناپسندیدہ بلکہ خوفزدہ کردینے والا تھا۔

ہم نے اسے دھکا مار کر ہاتھ چھڑایا اور اپنی بس کے سٹاپ کے راستے کی طرف چل دیے۔ وہ چند قدم ہمارے ساتھ چلتا رہا پھر پلٹ کر ہجوم میں گم ہوگیا۔ اس واقعہ نے ہمیں بری طرح ڈسٹرب کر دیا۔ اور ہم سارے اہداف اور ایڈونچر چھوڑ کر رہائش کی طرف چل پڑے۔ اسی میٹرو بس کے ذریعہ جنت محلہ سٹاپ پر اتر کر گھر پہنچتے ہوئے ہم سوچتے رہے کہ سیاحوں کی اس قدر زیادہ آمدورفت والے۔

اس شہر میں ایسے لوگوں کا یوں دیدہ دلیری سے سیاحوں کو حراساں کرنا یقیناً یہاں کی پولیس اور انتظامیہ کی ناکامی ہے یا پھر ان کی ملی بھگت سے ہے۔ گھر پہنچے تو حسنین اور نعیم صاحب باورچی خانہ میں بیٹھے چائے پر گپیں لگا رہے تھے۔ ہمیں چائے کی سخت حاجت ہورہی تھی جو فوراً ہی پیش کر دی گئی۔ اس دوران ہم اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کی تفصیلات بتا چکے تھے۔

واقعہ سننے کے بعد حسنین نے کسی قدر شرمندگی سے کہا کہ غلطی میری ہے، میں آپ کو آگاہ کرنا بھول گیا کہنا تکسیم اور گردونواح میں ایسے درجنوں دھوکے بازپھر رہے ہوتے ہیں۔ جو خواتین سے ملاقات کا جھانسہ دے کر سیاحوں کو قریبی عمارات میں لے جاتے ہیں۔ جنہیں انہوں نے چھوٹے سے بار کی شکل دی ہوتی ہے۔ ایک میز پر بیٹھتے ہی دو لڑکیاں آپ سے ساتھ آکر بیٹھ جاتی ہیں اور ان خواتین اور آپ کو ڈرنکس پیش کردیے جاتے ہیں۔

اگر آپ ڈرنک نہیں کرنا چاہتے تو آپ کو سافٹ ڈرنک لادیتے ہیں۔ ڈرنکس کے دوران کچھ تعارف کچھ باتیں ہوتی ہیں اور ساتھ ہی آٹھ سو ہزار لیرا کا بل لا کر آپ کو دے دیتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ میں نے تو آڈر نہیں دیا تو وہ کہتے ہیں کہ ان خواتین نے جو آپ کی مہمان ہیں انہوں نے آڈر کیا تھا۔ حتی کہ آپ احتجاج کرتے ہیں یا وہاں سے جانے کی کوشش کرتے ہو دوتین پہلوان نما بدمعاش آجاتے ہیں۔

جو زبردستی آپ کی جیبوں سے مطلوبہ رقم نکال کر آپ کو وہاں سے چلتا کردیتے ہیں۔ یوں بیچارہ سیاح کسی قدر قانونی طریقے سے لٹ کر آجاتا ہے۔ حسنین کا کہنا تھا کہ یہ فراڈ یہاں اس قدرعام ہے کہ شاید ہر دوسرا یا تیسرا سیاح اس کا شکار ضرور ہوتا ہے۔ ہم جو پہلے افسردہ سے، یہ داستان ہوشربا سن کر اللہ کا شکر ادا کیا کہ لٹنے سے بچ رہے۔ بعد میں جب مختلف دوستوں سے اس فراڈ کا ذکر کیا تو کئی دوستوں نے اعتراف کیا کہ ہمارے ساتھ بھی بالکل ایسا ہوچکا ہے۔

Check Also

Mitti Ki Khushbu

By Asad Tahir Jappa