Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. To Chalein Turkey (6)

To Chalein Turkey (6)

تو چلیں ترکی؟ (6)

چند ثانیے لگے ہوش و خرد اور ساری انگریزی مجتمع کرنے میں، تب ہم نے بمشکل تمام پوچھا۔

?Is this the residence of Mr. Husnian

کیا حسنین صاحب کی رہائش گاہ یہی ہے؟

.Yes and I am Oya

جی، اور میں اویا ہوں۔ ایسا کہتے ہوئے اس نے اپنا ہاتھ مصافحہ کے لیے بڑھایا۔ احمد، ہم نے بھی تعارف کروایا۔ یہ ایک پانچ مرلے کے گھر کا نیچے والا پورشن تھا۔ جس کا آغاز ایک دیوڑھی سے ہوتا تھا۔ دیوڑھی کے بائیں طرف اوپری منزل کا زینہ ہے۔ زینہ کے بعد دیوڑھی میں پھر ایک دروازہ ہے۔ اس دروازہ کے بعد دائیں طرف ایک چھوٹا سا کمرہ ہے جس میں صوفے وغیرہ لگے ہیں گویا ڈرائنگ روم ہے۔

اب یہ ہمیں نہیں پتہ کہ مہمانوں کے کمرے کو ڈرائنگ روم کیوں کہتے ہیں؟ قسم لے لیں جو ہم نے مہمانوں کے آنے سے پہلے کبھی یا ان کے جانے کے بعد یہاں بیٹھ کر کچھ "ڈرا" کیا ہو۔ یا کسی مہمان کو کبھی ڈرایا ہو۔ سنا ہے پہلے اسے withdrawing room کہتے تھے پھر آسانی کے لیے یہ ڈرائنگ ہو گیا۔ مگر ہمارے پاس تو اچھی بھلی بیٹھک ہوا کرتی تھی۔ پتہ نہیں یہ جدیدیت کی اندھا دھند پیروی اور کیا کیا کروائے اور کہلوائے گی ہم سے؟

بیٹھک کے اختتام پر ڈیوڑھی انگریزی حرف ٹی کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ دائیں طرف بیٹھک کا پچھلا دروازه اور اس کے بالکل سامنے مطبخ کا دروازہ۔ بائیں طرف ڈیوڑھی میں دائیں بائیں آمنے سامنے دو کمرے اور ڈیوڑھی کے اختتام پر سامنے ایک کمرہ۔ دائیں طرف والا کمرہ بڑا تھا جبکہ بائیں طرف والے کمرے کے ساتھ تھوڑی سی جگہ میں کپڑے دھونے کے لیے سروس ایریا بھی بنایا گیا تھا۔ یوں عجیب وغریب ڈیزائن والا یہ گھر تین کمروں، باورچی خانہ اور بیٹھک پر مشتمل تھا جسے تین لوگوں نے مل کر کرایہ پر لے رکھا تھا۔

ان تینوں میں سے ایک ہمارے شناسا حسنین صاحب تھے اور دوسری مس اویا تھی جن سے ابھی کچھ دیر پہلے ہمارا تعارف ہوا تھا۔ تیسرے صاحب ایک پاکستانی نژاد آسٹریلوی جن کا نام تو کچھ اور تھا مگر یہاں ہم انہیں نعیم صاحب لکھا کریں گے۔ نعیم بھائی آسٹریلیا میں ساری زندگی کرایہ پر چلنے والی کاروں کی ایک کمپنی چلاتے رہے۔ بقول ان کے اسی کمپنی سے گھر بنایا بچوں کو تعلیم دلوائی۔

لیکن شومئی قسمت کہ بیگم صاحبہ سے اختلاف کی بنا پر سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر یہاں آ گئے تھے۔ اور یہاں نئی زندگی کی شروعات کے امکانات کا جائزہ لے رہے تھے۔ مجموعی طور پر انتہائی بااخلاق، رکھ رکھاؤ والے نستعلیق قسم کے انسان تھے۔ اویا کی داستان حیات بھی دردناک ہی تھی۔ بچپن میں یتیم ہو جانے والی دور دراز گاؤں کی رہاشی اویا ایک غریب خاتون کی بیٹی تھی جس نے ہائی سکول سے اب تک اپنی تعلیم کا سارا بوجھ خود اٹھا کر بمشکل تمام میڈیا سائنسز میں گریجویشن کی تھی اور اب کسی چھوٹے سے بے نام میڈیا ہاؤس میں نوکری کا آغاز کیا تھا۔

ڈیوڑھی میں دائیں طرف والا بڑا کمرہ اویا کا تھا۔ اور بائیں طرف والا چھوٹا کمرہ نعیم صاحب نے لے رکھا تھا۔ جبکہ سامنے والا کمرہ حسنین صاحب کا تھا۔ یہ بھی ایک بڑا کمرہ تھا جس میں ایک بیڈ اور ایک صوفہ کم بیڈ کے ساتھ ساتھ رائٹنگ ٹیبل اور کپڑے استری کرنے والی میز بھی رکھی تھی۔ حسنین صاحب کے بقول استنبول یا دبئی میں رہنا بالکل ایسا ہی ہے جیسے گاؤں سے اٹھ کر کوئی لاہور میں گھر بنا لے۔

سارا گاؤں ہر جائز ناجائز کام کے لیے جب لاہور آتا ہے تو اسی کے ہاں ٹھہرتا ہے۔ گویا گھر ایک مہمان خانہ بلکہ سرائے کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اور ان کی اس بات کی ہمیں بہت زیادہ سمجھ آئی کہ ہمارا گھر بھی، ہمارے بچپن میں کئی سال تک اس مہمان خانہ کے مرتبہ سے مستفید یا مستفیض ہو چکا تھا۔ اور ان کی اس بات سے ہمیں شدید خفت اور کوفت بھی ہوتی اگر انہوں نے بصد اصرار یہاں ٹھہرنے کے لیے قائل نہ کیا ہوتا۔

کھانا گھر میں بھی بنایا جاتا تھا جس کی بیشتر ذمہ داری اویا اور نعیم صاحب کے کندھوں پر ہوتی تھی۔ مگر اس رات کے کھانے کے لیے ہمارے میزبان ہمیں گھر کے قریب ایک چھوٹے سے دکان نما ریستوران میں لے گئے۔ وہ ریستوران صرف ایک طرح کے کھانے کے لیے شہرت رکھتا تھا۔ اس کھانے کا نام "تان تُونی" Tantuni ہے۔ تان تونی کا تعارف حاصل کرنے کے لیے آپ یوں سمجھ لیں کہ ہمارے یہاں کا پراٹھا رول اس کی تھوڑی بگڑی ہوئی غیر صحتمند شکل ہے۔

تان تونی اور پراٹھا رول میں فرق یہ ہے کہ تان کی روٹی بہت باریک اور گھی یا تیل کے بغیر بالکل خشک ہوتی ہے۔ نیز اس میں جو گوشت کے ٹکڑے ڈالے جاتے ہیں وہ تکوں کی طرح براہ راست کوئلوں پر پکائے جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ اس میں وافر مقدار سلاد کے پتے ٹماٹر اور کھیرے بھی موجود ہوتے ہیں۔ ترکوں کے کھانے کی ایک خاص بات جو ہمارے مشاہدہ میں آئی کہ ان کے بیشتر کھانے انسانی صحت اور نیوٹریشن سائنس سے ہم آہنگ ہیں۔

ہمارے ہاں جس طرح مرغن اور مصالحہ دار کھانوں کا چلن ہے ان کے کھانے ہرگز ایسے نہیں۔ ہمارے برصغیر پاک و ہند کے کھانے تو شاید دنیا میں سب سے زیادہ مرغن، مصالحہ دار اور صحت دشمن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ چالیس سے پچاس سال کی عمر میں شاید ہی کوئی خوش قسمت ایسا ہو جسے ایک یا دو مستقل عوارض لاحق نہ ہوں۔ پاکستان کا ہر پانچواں شخص ذیابیطس کا مریض ہے اور ہر چھٹا شخص عارضہ قلب کا۔

(جاری ہے)

Check Also

Pak French Taluqat

By Sami Ullah Rafiq