Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ibn e Fazil/
  4. To Chalein Turkey (5)

To Chalein Turkey (5)

تو چلیں ترکی؟ (5)

چونکہ ترکی والوں نے اپنا شہرہ اس طرح کا بنا لیا ہے دنیا بھر سے لوگ ترکی بطور خاص استنبول آنا چاہتے ہیں۔ کرونا سے قبل سال دو ہزار انیس میں قریب ڈیڑھ کروڑ لوگوں نے سیاحت کی غرض سے ترکی کا سفر کیا۔ تصور کریں اگر فی کس صرف ایک ہزار ڈالر بھی ہر سیاح بھی خرچ کرے تو یہ پندرہ ارب ڈالر بنتے ہیں۔ یہ سیاحت اسی قدر بڑی صنعت ہے کہ اگر ہم پاکستان میں ترکوں کا دسواں حصہ بھی غیر ملکی سیاح لانے میں کامیاب ہو جائیں تو یقینی طور پر ہم آئی ٹی سیکٹر سے بھی زیادہ زرمبادلہ کما سکتے ہیں۔

مگر اس امر میں ابھی سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے یہاں کی امن وامان اور اجتماعی شعور کی صورت حال ہے۔ ورنہ یقینی طور ہر جو قدرتی حسن اور جغرافیائی اور تاریخی اعتبار سے اہمیت کے حامل سیاحت کے خزانے ہمارے پاس موجود ہیں ترکوں کے پاس اس کا عشر عشیر بھی نہیں۔ اسی سیاحت کی خاطر ترکی سرکار نے استنبول میں ذرائع آمدورفت بہت ہی عمدہ اور متنوع بنا رکھے ہیں۔

سب سے پہلے وہاں میٹرو بس ہے جس کی نقل لاہور میں بنائی گئی ہے۔ اس بس کا اور لاہور کی بس کا نظارہ انتہائی درجہ کی مماثلت رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ وہاں میٹرو ٹرین ہیں جو بالائے اور زیر زمین چلتی ہیں۔ پھر کچھ روٹس پر ٹرام بھی چلائی گئی ہیں تاکہ سیاحوں کے لیے زیادہ سے زیادہ دلچسپی برقرار رہے۔ ساتھ ہی ساتھ عام بسیں بھی بہت زیادہ تعداد میں اور بہت زیادہ جگہوں کے لیے چلائی جاتی ہیں۔

گویا استنبول میں کسی بھی جگہ پر کسی کونے کھدرے میں بھی جانا ہو آپ کو پبلک ٹرانسپورٹ با آسانی دستیاب ہو گی۔ استنبول پبلک ٹرانسپورٹ کی خاص بات یہ ہے کہ اس پر سفر کرتے ہوئے ہمارے یہاں کی پبلک ٹرانسپورٹ کی طرح کبھی آپ کے ذہن میں یہ بات نہیں آئے گی کہ آپ کسی کم تر سواری پر سفر کر رہے ہیں یا یہ کہ کسی طرح بھی یہ سفر کسی بھی شخصیت کی شان کے خلاف ہے۔

دوسری بات یہ کہ یہاں کے لوگ اتنے بنے سنورے، صاف ستھرے اور تیار شیار ہو کر گھروں سے نکلتے ہیں کہ باوجود کوشش کے آپ پہچان نہیں پاتے کہ کون صاحب یا صاحبہ بڑی افسر ہیں اور کون مزدور؟ ہمارے یہاں تو میٹرو بس میں کبھی سفر کا اتفاق ہو جائے انسان یہی تحقیق کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ انسانوں کی پسینہ کی خوشبو کے لحاظ سے روئے زمین پر کتنی اقسام پائی جاتی ہیں؟

استنبول کی ایک اور خاص بات کہ یہاں لوگوں میں عمومی اجتماعی حسن کا معیار بہت بلند ہے۔ گمان فاضل ہے کہ اگر کسی ڈرامہ کے لیے اوسط سے کم شکل و صورت کے مرد و خواتین درکار ہوں تو شاید استنبول سے باہر سے لانا پڑیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان سب لوگوں میں ایک دوسرے سے زیادہ خوبصورت دکھنے کا مقابلہ چل رہا ہے۔ رنگ اور قد عطاء کرنے میں تو قدرت نے بڑی فیاضی دکھائی ہے لیکن جسمانی ساخت کو متناسب رکھنے اور خود کو حسین اور جاذب نظر رکھنے کے لیے شاید یہ سب بہت احتیاط کرتے ہیں۔

اس پر مستزاد یہ کہ جب یہ لوگ گھروں سے نکلتے ہیں تو بالکل ایسے جیسے کسی تقریب میں جا رہے ہوں۔ لباس اور جوتے شاندار، استری و پالش شدہ، بال سلیقے سے بنے ہوئے اور چہروں پر ہمارے ہاں کی اکثریت کے برخلاف یاس یا ناامیدی کم ہی دکھائی دی۔ اس کی جگہ عزم یا اطمینان ہی نظر آیا۔ سرما میں استنبول جینز اور کوٹ کے پہناوے کا شہر ہے۔

نوے فیصد سے زائد مرد و زن آپ کو جینز اور کوٹ میں نظر آئیں گے وہ الگ بات ہے کہ مردوں کی پینٹیں کچھ ڈھیلی ڈھالی ہوتی ہیں جبکہ خواتین چست لباس کی دلدادہ ہیں۔ اور حیرت کی بات یہ کہ اس چست لباسی سے نہ گھر والوں کی آن کو آنچ آ رہی اور نہ ہی ان کا اسلام خطرہ میں پڑ رہا۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ سب اپنے کام میں اپنی ذات میں مست ہیں۔ اپنی آرزوؤں امنگوں کو عملی جامہ پہنانے کی لگن میں جتے ہیں۔ کسی کے پاس رک کر یہ دیکھنے کا وقت نہیں کہ کوئی دوسرا کیا کر رہا ہے یا کیا پہن کر پھر رہا ہے؟

ان لوگوں نے دوسروں پر تنقید کئے بغیر اپنے نظریہ حیات کے ساتھ پرسکون رہنا اور جینا سیکھ لیا ہے۔ اگر کوئی پارسا اور تہجد گزار ہے تو اس کو اس بات پر گھمنڈ نہیں ہے اور نہ ہی اس بات پر کوئی اعتراض کہ اس کا دفتری ساتھی انتہائی آزاد خیال ہے۔ جو جیسے رہنا چاہتا ہے رہ سکتا ہے نہ سرکار معترض ہے نہ سماج۔ بھئ سچ پوچھیں تو ہمیں ان کا یہ بقائے باہمی coexistence کا چلن اس معاشرے کا سب سے خوبصورت پہلو لگا۔

کاش کبھی ہمارے لوگوں میں بھی یہ بات آ جائے اور ہم بھی دوسروں کے کردار کے محافظ بننے کی بجائے اپنی اپنی زندگی جینا شروع کر دیں۔ استنبول کی ایک اور خاص بات استنبول کارڈ ہے۔ آپ کہیں سے بھی لے لیں۔ اس میں کچھ رقم جمع کروا لیں۔ اس کے بعد تمام میٹروز، بسوں، ریلوے، حتیٰ کہ پبلک واش رومز کے لیے بھی ادائیگی آپ اسی کارڈ سے کر سکتے ہیں۔ بار بار کیش لینے دینے کی اور وقت ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔

قیمتی دھاتوں کی تیاری کی مشینری بنانے والی اس فیکٹری سے واپسی پر ہم دوست کی ہدایات کے عین مطابق ان کی رہائش گاہ پہنچے۔ یہ رہائش گاہ میٹرو بس کے ایک سٹاپ "جنت محلہ" سے کوئی دو سو میٹر کے فاصلے پر نسبتاً ایک چھوٹی سی مگر بارونق گلی میں واقع تھی۔ ہم نے پوری سمجھداری اور ہوش مندی کے ساتھ سمجھے ہوئے پتہ والی عمارت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ کچھ دیر بعد جینز ٹی شرٹ میں ملبوس ایک سرخ و سپید، جوان سال، حسین خاتون نے دروازہ کھولا۔ اچانک یوں غیر متوقع طور پر ایک شعلہ جوالہ کو اپنے سامنے پا کر ہماری ہوشمندی تو اسی پتلی گلی سے بہ سرعت کہیں نکل گئی۔ (جاری ہے)

Check Also

Rezgari

By Ruqia Akbar Chauhdry