Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ibn e Fazil/
  4. To Chalein Turkey (3)

To Chalein Turkey (3)

تو چلیں ترکی؟ (3)

استنبول ائیر پورٹ پر جہاز سے اترنے اور اپنا سامان لینے کے بعد ہم نے کم از کم آدھا گھنٹہ ائیر پورٹ پر یہاں وہاں مٹرگشت کیا۔ اولین مقصد تو اس مٹرگشت کا ظاہر ہے، اس جزیرے والی حسینہ کو خود تک باعزت رسائی فراہم کرنا ہی تھا کہ جس میں وہ بیچاری قسمت کی ماری بری طرح ناکام رہی، مگر ثانوی طور ہم مقامی کرنسی اور فون کا سم کارڈ وغیرہ لیتے رہے تاکہ اپنے مقامی میزبان سے رابطہ کر سکیں۔

حصول سم کے بعد ان سے رابطہ کیا گیا اور انہوں نے راہنمائی فراہم کی کہ آئیدن یونیورسٹی Aydin University کے لیے ٹیکسی لے کر فلاں ڈیپارٹمنٹ میں آ جائیں۔ ہمارا صنعت کے دوستوں کا وفد ہم سے دو دن بعد آ رہا تھا کیونکہ جس صنعتی نمائش کے لیے بنیادی طور پر ہم یہاں آئے تھے وہ تین دن بعد تھی۔ لیکن ہمارا ان سے پہلے آنے اور ان کے بعد تک رکنے کا ارادہ اس وجہ سے تھا کہ ہم وہاں سے کچھ کیمیائی مرکبات اور کچھ آٹو پارٹس خریدنا چاہتے تھے۔

نیز یہ بھی ہدف تھا کہ جو پرزہ جات ہم بناتے ہیں ان کی کچھ صنعتیں بھی دیکھنے کا موقع مل جائے تاکہ ہم اپنے اور ان کے طریقہ کار کا تکنیکی تقابل کر سکیں اور ان سے کچھ جدید طرز صناعی سیکھ سکیں۔ آئیدن یونیورسٹی میں ہمارے ایک عزیز دوست کے بیٹے ملازمت کرتے تھے، ان کا اصرار تھا کہ جتنے دن ہم استنبول میں رہیں ان کے ساتھ قیام کریں کیونکہ انہوں نے وہاں چند دوستوں نے مل کر ایک اچھی خوبصورت رہائش گاہ کرایہ پر لے رکھی تھی۔

سو طے یہ ہوا تھا دو دن جو ہم اپنے وفد سے پہلے استنبول میں گزاریں گے۔ ان کی رہائش گاہ پر رہیں گے۔ اسی واسطے انہیں فون کیا اور انہوں نے یونیورسٹی آنے کا کہا۔ ساتھ ہی یہ ہدایت بھی جاری کی کہ گوگل نقشہ پر یونیورسٹی کی منزل سیٹ کر کے راستہ پر نظر رکھیں ورنہ ٹیکسی ڈرائیور فالتو میں گھما کر بہت زیادہ کرایہ بنالے گا۔ ہمارے حیطہِ تصور میں موجود ترکوں کے ہیکل گمان کو یہ پہلا جھٹکا تھا جو لگا۔

کرید کر پوچھا کہ کیا ترک بھی ایسا کرتے ہیں؟ فرمایا کہ ایسا، ویسا، جیسا، تیسا سب کرتے ہیں ہوش مندی سے رہیں گے تو کسی قدر لٹنے سے محفوظ رہیں گے۔ ہم ٹیکسی میں سوار ہوئے تو ہدایت کے مطابق گوگل نقشہ چلا لیا۔ میزبان کا خدشہ سو فیصد درست ثابت ہوا۔ ائیر پورٹ سے یونیورسٹی کی جانب جاتے ہوئے رنگ روڈ کے جس انٹر چینج سے ہمیں بھائی گوگل اترنے کا کہہ رہا تھا وہ ڈرائیور نے چھوڑ دیا۔

جب نقشہ دوبارہ سیٹ ہوا تو کئی میل اور کئی منٹ بڑھ چکے تھے۔ ہم نے پوری قوت سے شور مچا دیا کہ تم نے سڑک پیچھے چھوڑ دی اور ساتھ ہی اس کو گوگل دکھایا۔ وہ فوراً سمجھ گیا کہ مسافر ہدایت یافتہ ہے۔ اس نے اپنی زبان اور اشاروں سے کوئی عذر پیش کیا جو ہم سمجھ نہیں پائے۔ ہم نے اپنی رٹ لگائے رکھی۔ بہر حال اس نے اگلے انٹر چینج سے گاڑی اتار کر ہمیں یونیورسٹی پہنچا دیا۔

ہم نے احتیاطََ حضرت ڈرائیور کے کارستانی اپنے میزبان کی گوش گزار بھی کر دی۔ اس نے پوچھا کہ کتنی دور ہیں؟ ہم نے اندازََ بتا دیا۔ جب ہم ان کے ڈیپارٹمنٹ پہنچے تو وہ باہر ہی موجود تھے۔ ہم سے ملاقات کے بعد ڈرائیور سے بات کی اور غالباََ اس کو قانونی کارروائی کی دھمکی دے کر وہی رقم ادا کروائی جو اس کا حق تھا۔ میزبان چونکہ بہت روانی سے مقامی زبان بولنے کی صلاحیت رکھتے تھے سو ان کے دفتر میں بیٹھ کر ہم نے ان سے کچھ کمپنیوں سے رابطہ کرنے کی درخواست کی۔

چار لوگوں سے بات ہوئی جن کے ایڈریس اور رسائی کی معلومات ہم نے نوٹ کر لیں۔ اس کے بعد ہم نے جامعہ کا چھوٹا سا چکر لگایا۔ استنبول میں جگہ انتہائی مہنگی ہونے کے باوجود جامعہ کا رقبہ کافی زیادہ ہے۔ گو عمارتیں نسبتاً قریب قریب اور کثیرالمنزلہ تعمیر کی گئی ہیں تاہم جابجا چھوٹے چھوٹے کھلے سر سبز قطعات کا اہتمام بطور خاص کیا گیا ہے۔

ساری جامعہ کی خاص بات صفائی ستھرائی اور سلیقہ تھا۔ راستے، دیواریں، گھاس کے قطعات، کیاریاں سب کچھ انتہائی خوبصورت صاف ستھرے اور قابل دید۔ ایک ترتیب توازن اور بصری حسن کا مرقع۔ ہر لحاظ سے ماحول پرسکون، تدریس اور تحقیق کے لیے موزوں ترین۔ جی چاہے کہ یہاں بیٹھ کر پڑھا جائے۔ جامعہ کی طرح طلبا بھی صاف ستھرے، چاک و چوبند اور آنکھوں میں سنہرے مستقبل کی چمک چہروں پر کچھ کر گزرنے کا عزم۔

جامعہ کے تعارفی دورہ کا اختتام جامعہ کی کینٹین پر ہوا۔ کینٹین بھی جامعہ کی طرح ہی انتہائی صاف ستھری اور ترتیب و سلیقہ کا مظہر۔ میزبان اور ہم ایک قطار میں لگ گئے۔ قطار آہستہ آہستہ چلتی ہوئی کینٹین کے کاؤنٹر کے سامنے سیدھی ہو گئی۔ کاؤنٹر سے سب لوگ ٹرے، رکابیاں اور چمچ وغیرہ لے رہے تھے۔ ہم نے بھی کامل نقل کی۔

جاری ہے۔

Check Also

Modi Hai To Mumkin Hai

By Wusat Ullah Khan