To Chalein Turkey (2)
تو، چلیں ترکی؟ (2)
نوجوانانِ ملت جو کرنل محمد خان، برگیڈیر صدیق سالک، قبلہ مستنصر حسین تارڑ اور آنجناب سید مہدی بخاری کے سفر نامے پڑھتے اور ہمسایہ ملک کی فلمیں دیکھتے بڑے ہوتے ہیں، جب کبھی اماں کا زیور یا ابا کے کٹے بیچ کر پہلی بار عازم سفر ملک دیگر ہوتے ہیں، ان کے حیطہ تخیل میں ایک ریشمی سی کہانی ہوتی ہے۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ جیسے ہی وہ جہاز میں اپنی مخصوص نشت پر تشریف فرما ہوں گے۔
ایک حسینہ سرو قد و کم لباس ان سے زبان افرنگ میں آ کر کہے گی "ایکسیوزمی یہ ساتھ والی سیٹ میری ہے اگر جان کی امان پاؤں تو یہاں بیٹھ جاؤں؟" رکیں رکیں جناب۔ یہیں تک نہیں۔ کہانی اور بھی ہے۔ حضرت سرعت سے اٹھیں گے حسینہ کا سامان دستی اس سے لیکر بالا خانہ میں رکھیں گے اور اسے سیٹ پر براجمان ہونے میں ہر ممکن اخلاقی اور غیر اخلاقی مدد فراہم کریں گے۔ دوران پرواز تعارف ہو گا۔
حسینہ ملک مذکور کے امیر ترین شخص کی واحد دستاویزی اولاد ہے۔ جو شہر کے قریب ہی اپنے ذاتی جزیرہ میں رہتا ہے۔ اس کے پندرہ ہزار کاروباروں میں سے ایک سانپوں کی کھال کے جوتے اور پرس بنا کر امیر و بیوقوف گوریوں کو لوٹنا ہے۔ حسینہ کو کسی نے بتا دیا تھا کہ وطن عزیز میں سانپ بہت ہیں سو وہ اسی جستجو میں یہاں خجل ہونے آئیں تھیں اور خیر سے اب ان کے ساتھ والی "اکانومی" کلاس کی سیٹ میں پھنس کر واپس جا رہی ہیں۔
مزید برآں یہ کہ وہ ان حضرت کی آن لائن لُڈو کھیلنے کی صلاحیت سے اس قدر متاثر ہوئی ہیں کہ جہاز سے اترتے ہی بزور اپنے گھر لیجاتی ہے اور کہتی ہے آج سے میں اور میرا سب کچھ تمہارا وغیرہ وغیرہ۔ اور وہ ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں، لیکن اصل میں ہوتا کیا ہے، بنیر کے ایک خان صاحب آ کر کندھا ہلا کر خواب نقرئی سے بیدار کرتے ہوئے حکم جاری کرتے ہیں "ماڑا ساتھ ہو جاؤ ام یہاں بیٹھے گا"۔
لیکن ہمارا نہ یہ پہلا سفر تھا اور نہ ہی ہم ان صاحب کی طرح تخیلاتی تخلیقی صلاحیتوں کے مالک ہیں سو ہمارے تصور میں کہانی تھوڑی مختلف اور حقیقت پسندی پر مبنی تھی۔ اور وہ یہ کہ وہی جزیرے والی حسینہ جہاز میں نہیں بلکہ ائیر پورٹ پر ملے گی جو اپنے منگیتر کو الوداع کرنے آئی ہو گی لیکن ہماری شخصیت کے سحر میں کھو کر انگلیاں کاٹنے لگے گی، باقی کہانی تقریباً ملتی جلتی ہے جو آپ نے پہلے سن رکھی ہے۔
سفر کی مقررہ تاریخ میں ابھی کچھ وقت تھا سو ہم نے اپنے ترکی کے دورہ کو زیادہ سے زیادہ مفید بنانے کے لیے، اپنے کام سے متعلق ترکی کی مزید کئی کمپنیوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر ایک کمپنی کے سوا کسی سے بھی خط و کتابت یا گفتگو نہ ہو سکی وجہ صرف اور صرف انگریزی سے نا آشنائی تھی۔ ادھر چند روز بعد ہمیں پیغام موصول ہوا کہ ترکی کا سفارت کار ہم سے بالمشافہ ملنے کا خواہشمند ہے۔
ہم خوشی سے پھولے سمانا شروع ہوتے ہیں کہ آخر دنیا والوں پر ہماری اصلیت و عظمت ظاہر ہو ہی گئی جو سفارت کار نے ہمیں بنفس فربہ بلا بھیجا ہے، مگر ظالم پیامبر نے پورے تینتیس سیکنڈ بھی خوش نہ رہنے دیا فرمایا عزیز ہم وطنوں کی مہربانیوں بلکہ ریشہ دوانیوں کے سبب ترک سفارت خانے نے لازمی قرار دیدیا ہے کہ کسی پاکستانی کو بنا حاضری کے ویزا نہیں دیں گے۔ جان کر احساس طمانیت ہوا کہ عزیز ہم وطن کی روش کج ادائی بلا تفریق رنگ و نسل و قومیت سب کے ساتھ یکساں ہے۔
قصہ کوتاہ۔ ویزا اور دیگر امور بابت سفر بروقت بخیر و خوبی انجام پائے اور ہم بروز مقرر قومی ہوائی کمپنی کے جہاز سے لاہور سے کراچی کے لیے روانہ ہوئے۔ قومی ہوائی کمپنی کے متعلق تو ہمارے افکار فکیہہ سے آپ آگاہ ہی ہوں گے کہ جیسے جہاز کے گزرنے پر اہل زمین کا تراہ نکلتا ہے اسی سہولت کا انتظام انہوں نے اہل وطن کے لئے جہاز کے اندر بھی کر رکھا ہے۔ بعض اوقات جہاز کی حالت، اس کے اندر باہر سے نکلنے والی آوازوں اور گڑگڑاہٹ سے یہ کام لیا جاتا ہے جب کہ بسا اوقات فضائی میزبانوں سے۔
کراچی سے ہمیں ترک ائر لائن کی پرواز سے استنبول جانا تھا۔ ترک ائیر لائین دنیا میں اثاثوں کے اعتبار سے سترہویں اور کارکردگی کے لحاظ سے ساتویں نمبر پر ہے۔ جبکہ قومی ائیر لائن دونوں اعتبار سے پہلے سو میں بھی نہیں، مگر ہمیں پریشان نہیں ہونا۔ کیونکہ روح اقبال سے معذرت کے ساتھ۔
غیرت نہیں ہے بڑی چیز جہاں تگ ودو میں۔
ائر لائن کو ترکی میں ہوائی لیمان کہتے ہیں۔ جہاز میں جب ترکی زبان میں اعلان کیا گیا تو ہم نے اپنا، ہوائی، پہچان لیا۔ اسی طرح اور بہت الفاظ ہمارے اردو کے ترکی والوں نے چرا رکھے ہیں۔ مثال کے طور پر محلہ، جنت، دکان وغیرہ۔ ہم نے دوران قیام بہت فخر بھی کیا مگر قابل خرگوشوی نے واپسی ہماری خاصی گوشمالی، و گوجنوبی وغیرہ کی کہ گھامڑ یہ ان کے الفاظ ہیں جو اردو نے سمیٹ رکھے ہیں۔ بلکہ وہ تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ خود اردو بھی ترکی کا ہی لفظ ہے۔ لو جی، کر لو گل۔