Timatar Kahani
ٹماٹر کہانی
قدرت کی فیاضی ہے کہ ہر طرف ٹماٹروں کی بہتات ہے۔ مگر ہمارا ناقص علم وعمل اس سطح پر نہیں کہ اس فراوانی نعمت کا کماحقہ فائدہ اٹھا سکیں۔ حالانکہ جب ان کی رُت بیت جائے گی تو پھر کبھی کہیں سے تلاش کریں گے اور کبھی کہیں سے۔ ابھی صورتحال یہ ہے کہ پنجاب میں انتہائی عمدہ ٹماٹر سات روپے کلو بک رہا۔ اور کچھ روز پہلے سندھ میں لوگ کچرے کے ڈھیر پر ڈھیر کررہے تھے۔
دوستو۔۔ ٹماٹر کو عام طور دو طرح سے محفوظ کیا جاتا ہے۔ ایک تو خشک کرکے پاؤڈر بنا کر۔ اور دوسرا اس کی پیسٹ بنا کر۔ خشک کرنے کیلئے چونکہ بہت زیادہ توانائی درکار ہوتی ہے تو یہ کام صرف ان علاقوں میں کیا جاتا جہاں دھوپ اچھی ہو لیکن ساتھ ہی ہوا میں نمی کا تناسب بہت کم ہو۔ کیونکہ اگر ہوا میں نمی کا تناسب زیادہ ہو تو دھوپ کی موجودگی میں بھی فنگس لگ جاتی ہے۔
اسی لیے زیادہ تر افغانستان میں پھلوں اور سبزیوں کو خشک کرنے یہ کام پیمانے پر ہوتا ہے کہ وہاں نمی کا تناسب آجکل پندرہ سے پچیس کے درمیان رہتا ہے۔ خاص طور پر مشرقی علاقوں میں۔ گو کہ بلوچستان میں بھی نمی کا تناسب اتنا ہی یا اس سے بھی کم ہوتا ہے مگر ہمارے لوگ شاید ابھی علم وآگہی کے اس مرتبہ پر نہیں پہنچے جہاں افغانی ہیں۔ حالانکہ اگر آج آٹھ مئی سال دوہزار اکیس کی بات کریں تو قندھار میں اس وقت نمی کا تناسب 23 فیصد اور درجہ حرارت 34 ہے جبکہ کوئٹہ میں آج نمی 17 فیصد اور درجہ حرارت 27 ہے۔
اس کے برعکس لاہور میں آج نمی 38 فیصد ہے اور چشتیاں میں بھی 38 فیصد ہے۔ گو کہ اس تناسب پر بھی گرین ہاؤس بناکر پھلوں اور سبزیوں کو خشک کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس کیلئے تھوڑی سی زیادہ جانکاری ضروری ہے۔
برسبیل تذکرہ اگر ہم بلوچستان کے لوگوں کو پھلوں اور سبزیوں کی کاشت اور انکے خشک کرنے کا عمل سکھا کر اس کام پر لگادیں تو میرا خیال ہے کہ ٹیکسٹائل کی طرح یہ بھی ہماری بہت بڑی کماؤ صنعت بن سکتی ہے۔۔ جس سے مقامی لوگ بھی بہت زیادہ خوشحال ہوجائیں گے۔
ٹماٹر کی اگر ہم بات کریں تو اس میں چونکہ پانی قریب پچانوے فیصد ہوتا ہے اس لیے اسے خشک کرنا باقی پھلوں کی نسبت مشکل عمل ہے۔ اگر ہم اس کے قتلے کاٹ کر ہوا میں خشک کرنے کی کوشش کریں تو اس عمل میں بارہ سے بیس دن تک لگ سکتے ہیں۔ کیونکہ چھلکے سے نمی آڑنے کی رفتار بہت کم ہوتی ہے اور باقی گودے کا سطحی رقبہ Surface area اتنا کم ہوتا ہے کہ عمل تبخیر کی رفتار کافی سست رہتی ہے۔
عام حالات میں یعنی کھلی فضا میں اتنے لمبے عرصے تک انہیں پھپھوندی اور نقصان دہ بیکٹیریاز سے بچانا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ ساتھ ہی زیادہ عرصہ دھوپ میں پڑے رہنے پر ان میں موجود غذائیت اور رنگ بھی شدید متاثر ہوتا ہے۔ اس لیے بڑے پیمانے پر اس طریقہ کار سے فائدہ نہیں اٹھایا جاسکتا۔
لیکن اگر ہم انہیں تھوڑا سا پکاکر ان کا چھلکا اور بیج نکال دیں اور اس کا گودہ یعنی پلپ کو بڑی بڑی ٹریز میں ڈال کر گرین ہاؤس میں خشک کریں تو یہ تین سے چار دن میں گاڑھی پیسٹ کی صورت اختیار کرجاتی ہے جوکہ ٹماٹو پیسٹ کے نام سے دنیا بھر میں بکتی اور استعمال کی جاتی ہے۔
اس کام کیلئے آپ کو مندرجہ ذیل چند اشیاء کی ضرورت ہے۔ جن کی متوقع قیمت بھی دی گئی ہے
ایک بڑی سی کڑاہی (-/ 30000 روپے)
ایک عدد چولہا یا بھٹی (-/ 20000 روپے)
ایک عدد کم رفتار کا مکسر (- /25000 روپے)
ایک گھومنے والا چھاننا۔ (- /40000 روپے)
خشک کرنے کیلئے پلاسٹک یا لکڑی کے ٹرے (-/ 100000 روپے)
پیکنگ مشین۔ (- /10000 روپے)
کھلی جگہ پر بانس اور مومی لفافہ کی مدد سے بنایا ہوا گرین ہاؤس۔ جیسا کہ تصویر میں دکھایا گیا ہے۔ (- /75000 روپے۔)
کل خرچ: - / 300000 روپے۔
(نوٹ: مکسر اور گھومنے والے چھاننے کی جگہ کم استعداد کا پلپنگ مشین بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ جس کی قیمت ان دونوں کی قیمت سے دس بیس ہزار زیادہ ہوگی۔)
کڑاہی میں سو کلوٹماٹر اورپانچ کلو پانی ڈال کر گرم کریں۔ ساتھ ساتھ لکڑی کے ڈنڈے ہلاتے رہیں۔ اگر مناسب آگ ہوتو بیس سے تیس منٹ میں اچھی طرح گل جائیں گے۔ اگر آگ لکڑیوں سے جلائی جائے تو اس بات کا خاص دھیان رہے کہ دھواں بالکل ٹماٹروں میں شامل نہ ہو۔ بلکہ اس کی علیحدہ اونچی چمنی بنا کر ٹماٹروں سے دور نکالیں۔ جب سارے ٹماٹر اچھی طرح گل جائیں تو کم رفتار والے مکسر کی مدد انکی پیسٹ بنالیں۔
گھومنے والا چھاننا بالکل کپڑے خشک کرنے والی مشین کی شکل کا ہوتا ہے جس میں سٹیل کا 1۔ 25 ملی میٹر سوراخوں والا چھاننا لگا کر اس میں یہ پیسٹ ڈالیں۔ سارے چھلکے اور بیج اس چھاننے میں رہ جائیں گے اور ٹماٹروں کا گودا نتر کر باہر آجائے گا۔ اس نترے ہوئے گودے کو ٹرے میں ڈال گرین ہاؤس میں رکھ دیں۔
ٹرے میں گودے پانچ سے چھ ملی میٹر کی تہہ لگائیں گرین ہاؤس کے سائیڈوں پر سولر پینل اور 12 وولٹ کے چھوٹے چھوٹے پنکھے لگادیں۔ تاکہ ان میں ہلکی ہلکی ہوا جاتی رہے۔ یاد رہے کہ پنکھوں کے آگے باریک فلٹر ضرور لگائیں تاکہ مکھیاں، پتنگے وغیرہ اور مٹی اندر نہ جاسکے۔
ٹرے میں رکھے ٹماٹروں کا وزن تین سے چار دن میں پانچواں حصہ رہ جائے گا۔ یعنی پانچ کلو کا ایک کلو گرام۔ اس وقت اس کو نکال کر پھر اسی ڈگری تک گرم کیا جائے گا۔ اگر شیشے کے جار یا ٹن پیک کرنا ہو تو کسی بھی پریزرور کی ضرورت نہیں۔ اگر پلاسٹک کی تھیلیوں میں پیک کرنا ہو تو سو کلو گرام پیسٹ میں سو گرام سوڈیم بنزویٹ ملاکر ہوا بند سیل کردیں۔ ایک سال تک قابل استعمال رہے گا۔
اب دیکھیں ٹماٹر کی قیمت دس روپے کلو بھی لگائیں، تو چھ سو کلو چھ ہزار کے۔ ان میں سے سو کلو گرام پیسٹ بنے گی۔ لکڑی یا گیس، مزدوری اور پیکنگ ڈال کر دس ہزار بھی پڑے تو پیک بہترین پیسٹ سو روپے کل گرام پڑی۔ سو کلو روزانہ کی استعداد والے اس نظام سے مہینہ بھر میں تین ٹن پیسٹ جمع کرسکتے ہیں۔۔ جب ٹماٹر ختم ہو جائیں۔ تب فروخت کریں۔
میٹرو پر پانچ سو گرام کا پیسٹ کا پیک دوسو بیس کا ملتا ہے۔ آپ ایک کلو دو سو میں بیچیں تو سو فیصد منافع ہے۔ اس طرح ایک ایکڑ سے خرچ نکال کر کل چار لاکھ تک کمایا جاسکتا ہے۔
دوسری طرف ٹماٹر استعمال کرنے والوں سے گذارش ہے کہ جیسے ہی ٹماٹر پچاس روپے کلو سے مہنگے ہوں، فوراً پیسٹ کا استعمال شروع کردیں۔ کیونکہ جو پیسٹ آپ ڈھائی سو روپے کلو میں بھی خریدیں گے وہ چھ کلو ٹماٹر سے بنی ہوگی۔ گویا آپ کو بیالیس روپے کلو ٹماٹر پڑے۔ صنعتی پیمانے پر ٹماٹروں سے پیسٹ بنانے کی تفصیل اگلے مضمون میں انشاءاللہ۔
اور اہم بات کہ اسی سارے نظام سے باقی سال آپ دوسرے پھلوں جیسے آڑو، خوبانی، آلو بخارا، سٹرابیری وغیرہ کا فروٹ لیدر بنائیں۔ اس میں بھی اسی طرح منافع کی شرح سو فیصد سے زائد ہی رہے گی۔ نیز یہ پیسٹ اور فروٹ لیدر بنانے میں اگر آپ مہارت حاصل کرلیتے ہیں تو پوری دنیا آپ کی منڈی ہے۔