Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. Taraqi Yafta

Taraqi Yafta

ترقی یافتہ

ساری جستجو کا ہدف کیا؟ ترقی۔ سالہا سال کی پڑھائی۔ راتوں کی محنت۔ گھر والوں سے دوری۔ باپ کی جوانی، فیسوں کی نذر ہوگئی ماں نے گہنے بھی بیچ ڈالے۔ آرزو۔ ترقی۔ کیا ہے یہ ترقی؟ ۔ کسے نصیب ہو گی ترقی؟ کیسے ملے گی یہ ترقی؟ نہیں معلوم۔ غور کرتے ہیں۔

سب سے آسان طریقہ جو ترقی یافتہ ہیں۔ ان کو دیکھتے ہیں ترقی یافتہ ممالک یا اقوام کون کون سے ہیں۔ امریکہ، کینیڈا جرمنی، فرانس کوریا جاپان۔ وغیرہ ہم اور ان میں فرق کیا ہے ارب پتی تو ہمارے ہاں بھی بہت۔ گاڑیوں کی یہ لمبی لمبی قطاریں کہ گھر پہنچنا محال۔ پھر فرق کیا ہے ترقی یافتہ ممالک میں۔ اسی فیصد سے زیادہ لوگ آسودہ حال ہوتے ہیں۔ اور ہمارے ہاں شاید بمشکل بیس فیصد۔ مطلب ترقی یہ نہیں کہ میں امیر ہوجاؤں ترقی جب ہےکہ " ہم امیر ہوجائیں "

اور یہ کیسے ہوگا۔ جب ہم مل کر آگے بڑھیں گے۔ ایک دوسرے کو آگے بڑھنے میں مدد دیں گے۔ ایک دوسرے کا دست وبازو بنیں گے۔ ٹانگیں کھینچنے کی بجائے ہاتھ تھامیں گے "ترقی یافتہ ہونے کے لیے مثبت اجتماعی رویے اپنانا ناگزیر ہے"۔

جب آپ کہتے ہیں کہ امریکہ میں مواقع بہت ہیں تو اس کا مطلب کیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب وہاں فصل آتی ہے تو آڑھتی مل کر ایکا کرکے کسان کا استحصال نہیں کرتے، ان کی خواہش و کوشش یہ نہیں ہوتی کہ سارے کا سارا منافع ہماری جیبوں میں جائے اور کسان روئے بیٹھ کر اپنے نصیبوں کو۔ مطلب یہ ہے کہ اگر میں میرٹ پر ہوں تو چاہے جس رنگ کا ہوں جس ملک سے ہوں بغیر سفارش گوگل کا سی ای او بن سکتا ہوں ۔ مطلب یہ ہےکہ چاہے میں فٹ پاتھ پر سوتا ہوں اور میرے مقابل کوئی ارب پتی بھی ہے تو بھی میرے ساتھ انصاف ہی ہوگا۔

مطلب یہ کہ جب کوئی چھوٹی فیکٹری والا مال بناکر تھوک والے کے پاس جاتا ہے تو وہ اس کو بلیک میل نہیں کرتا۔ اس سے دس کی خریدی چیز اسی کے سامنے بیس کی نقد بیچ کر اسے ادھار کی پرچی نہیں پکڑاتا کہ ادائیگی روز حساب سے ایک دن پہلے ہوجائے گی۔

جب ہم کہتے ہیں کہ جاپان میں خوشحالی ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ لاکھوں روپے ماہانہ کمانے والے فیکٹری مالکان کے ملازمین بھی آسودہ حال ہیں، وہ گاڑیوں پر فیکٹری آنا 'افورڈ' کرسکتے ہیں۔ وہاں مزدور کی کم سے کم تنخواہ سترہ ہزار مقرر نہیں کی گئی۔

جب ہمیں لگتا ہے کہ خاندانی زمین بیچ کر، ایجنٹ کو بیس لاکھ دیکر اور جان ہتھیلی پر رکھ کر کسی طرح یورپ پہنچ جائیں تو بھی گھاٹے کا سودا نہیں تو اس کے پیچھے بھی یہی منطق ہے ٹیکسی بھی چلانا پڑی تو سال بھر میں اس سے زیادہ کمالیں گے۔ تو یقیناً ہمیں اپنے نظام پر اتنا بھی اعتماد نہیں کہ وہی بیس لاکھ لگا کر ہم یہاں ماہانہ لاکھ دولاکھ کماسکتے ہیں۔ کیونکہ یہاں ہر طرف دھوکے ہیں، ہر اور رکاوٹیں ہیں ۔

ہمیں تو کبھی کبھی لگتا ہے کہ ہم سب سپیڈ بریکر ہیں ایک دوسرے کی ترقی کی راہ میں حائل سپیڈ بریکر۔ کوئی کتنا بھی ذہین ہو کتنا ہی بہادر ہو آخر کتنے سپیڈ بریکر عبور کرسکتا ہے۔ سپیڈ بریکروں سے بھری سڑک پر کتنی رفتار حاصل کرسکتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہم ترقی یافتہ نہیں اور تب تک نہیں ہو۔۔ سکتے جب تک اپنی ذات سے آگے دیکھنا نا سیکھ لیں، جب تک "میں " کی اسیری سے نکل کر ہم کی برکت میں نہ آجائیں ۔

جب تک حق دار کو بخوشی حق دینے کی روش نہ اپنا لیں جب تک طاقتوروں کے نااہل بچوں کی سفارشیں رد کرکے غریبوں کے قابل و اہل بچوں کی تقریریاں نہیں ہوتیں جب تک انصاف پر غریب اور امیر کی یکساں دسترس نہیں ہوتی۔ جب تک غنا و سیری کو حرص و حسد پر فوقیت نہیں ہوتی۔ تب تک باپوں کی زندگیاں فیسوں کہ نذر ہوتی رہیں گی۔ اور ماؤں کے گہنے بکتے رہیں گے مگر۔ خاکم بدہن ترقی۔ نصیب نہ ہوگی ۔

Check Also

Pak French Taluqat

By Sami Ullah Rafiq