Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. Sapna

Sapna

سپنا

تاحد نگاہ پھیلے اس سبزہ زار میں حیطہ تخیل میں آنے والا ہر جمال اوج کمال پر تھا۔ خوبصورت رنگا رنگ پھولوں سے لدی کیاریوں کے بیچ وبیچ شفاف پانیوں کی ندی مدھر گیت گنگناتے ہوئے رواں تھی۔ خوش رنگ پرندے فضاؤں میں ملیح و خوش نوا نغمے بکھیرتے ہوئے۔ صبح کی روپہلی کرنیں ماحول کو خواب آگیں سنہری چادر اوڑھارہی تھیں۔ ایسے مثالی ماحول میں روئے زمین پر سب سے پسندیدہ وعزیز ہستی کے ساتھ حیات جاودانی کے بتائے ہوئے چند ثانیے بھی صدیوں کا لطف دیتے ہیں، چہ جائے کہ ایک عمر ہی گذار دی جائے۔ خوشگواری اور سرشاری میں کبھی یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ اس سبزہ زار کے ایک سرے پر ایک بڑی سی آراستہ پیراستہ سفید عمارت بھی ہے۔

نہیں یہ پہلے یہاں نہیں تھی شاید رات رات میں ہی کوئی بناگیا۔ ارے نہیں یہ تو تب سے ہی یہیں ہے جب سے ہم اس سبزہ زار کے مکیں ہوئے۔ اچھا حیرت ہے۔ کیسی کشش ہے اس عمارت میں۔ قد آدم کانچ کی کھڑکیوں کے پیچھے جہازی سائز کے سفید میزوں کے پیچھے سفید وردیوں میں ملبوس چاک وچوبند ہرکارے کھڑے ہیں۔ دونوں اطراف بڑے آرام دہ صوفوں کی قطاریں ہیں۔ میزوں کے سامنے کچھ لوگ قطار میں کھڑے اپنی باری کا انتظار کررہے ہیں۔ نہیں معلوم کس لیے قطار میں کھڑے ہیں۔

آؤ اس عمارت میں چل کر دیکھتے ہیں اندر کیا ہورہا ہے، ہم نے بے خودی میں عمارت کے صدر دروازے کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے کہا۔ نہیں نہیں آئیں واپس چلتے ہیں۔ مہربان ہم سفر نے قدرے گھبراہٹ سے کہا۔ ایسا کہتے ہوئے اس نے کوشش کرکے اپنا ہاتھ بھی چھڑالیا تھا۔ مگر ہمیں تو ایک بار دیکھنا ہے۔ آپ چلیں ہم اندر سے گھوم کر آتے ہیں۔ اس سے پہلےکہ ہمسفر کی جانب سے کوئی احتجاج ہوتا کوئی روکنے کی سعی ہوتی ہم کانچ کے دروازے کو دھکا دے کر ہال میں داخل ہو گئے۔ ہم سفر نے آنا چاہا مگر دروازہ نہیں کھلا۔ ہم نے اشارے سے کہا آپ چلیں ہم آتے ہیں۔ اور ہم کشاں کشاں ایک قطار میں کھڑے ہوگئے۔

قطار میں لگتے ہی ایک مستعد ہرکارہ ہمارے پاس آیا اور کہنے لگا یہ واپس جانے والوں کی قطار ہے۔ آپ کو واپس جانا ہوگا۔ مگر ہم تو صرف معلومات لینے کے لئے آئے تھے۔ کچھ بھی ہو اب واپسی اٹل ہے۔ نہیں ہمیں تو سبزہ زار میں بہت سے کام ہیں۔ ابھی تو ہمارے بچے بھی پاؤں اناج اگانا، پھل توڑنا سیکھ رہے ہیں۔ اور یہاں کے بہت سے لوگوں کی زندگیاں ان کے مستقبل ہم سے وابستہ ہیں۔ ان کا کیا ہوگا۔ یہ کیسا مذاق ہے ہمیں سبزہ زار جانے دو۔

چپ چاپ کھڑے رہو یہاں آنے والے سب کو ہی یہی غلط فہمی ہوتی ہے کہ وہ ناگزیر ہیں۔ ان کے جانے سے نظام کار رک جائے گا۔ آسمان گر پڑے گا۔ کچھ نہیں ہوتا۔ تمہارا دادا بھی گیا، باپ بھی گیا نظام چلتارہا۔ تمہارے جانے سے بھی کچھ نہیں ہوگا۔ مگر میں نے تو بہت لوگوں سے پیسے لینے ہیں، بہت سے لوگوں کا ادھار لوٹانا ہے۔ کئی اپنوں کی دل آزاری کی ان سے معافی مانگنا ہے۔ کسی کو یہ بتاکر شکریہ ادا کرنا ہے کہ تمہارے بہت احسان ہیں مجھ پر۔

سب بہانے سینکڑوں بار سن چکے ہیں۔ کسی پر استثناء نہیں۔ مگرمنے تو بہت گناہ کیے ہیں، ان گنت نافرمانیاں۔ مجھے تو اپنے رحیم وکریم رب سے معافی مانگنا ہے۔ اس سے رازونیاز کرنا ہے۔ اس کی بارگاہ میں گڑگڑانا ہے۔ خدا کے لیے اتنا وقت تو دے دو۔ اور کچھ نہیں تو صرف اتنا ہی کہ میں توبہ کرلوں۔۔ پکی سچی توبہ۔ لالچ اور دھوکے سے پاک کھری توبہ۔ بھائی صاحب یہ سب کچھ سبزہ زار میں ممکن تھا۔ اس سفید عمارت میں آپ صرف بیتے لمحوں کو یاد کر سکتے ہیں اور پچھتا سکتے ہیں۔

اے اللہ تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ یہ تو صرف سپنا تھا۔ تو نے ایک اور نیا دن عطاء کیا۔ نئی مہلت رحمت فرمائی۔ آج ہی سارے قرض ادا کروں گا۔ آج ہی سب ناراض لوگوں کو مناؤں گا۔ آج پکی سچی کھری توبہ کرتا ہوں۔ قبول فرما۔ آئندہ خوش کن غفلت سے بچائے رکھنا۔

Check Also

Amjad Siddique

By Rauf Klasra