Sance Dan
سینسدان
ہمارے پیارے دوست اور استاد محترم بشارت حمید صاحب نے ایک روز بتایا کہ وہ کراچی جا رہے تھے تو جہاز کے عملے نے انہیں پہچان لیا۔ ان کی خوب آؤ بھگت اور مدارات وغیرہ کی غالباََ کاک پٹ میں بھی لے کر گئے۔ بہت اچھا لگا تھا جان کر۔ مگر ساتھ ہی دل میں آس بھی جگی کہ ہمارے ساتھ بھی کبھی ایسا ہو۔
پچھلے روز ہمیں کراچی جانا تھا۔ جیسے ہی جہاز کی سیٹ کنفرم ہوئی ہم نے سوچنا شروع کر دیا کہ چاہے ہم بشارت بھائی جیسی بھاری بھر کم شخصیت تو نہیں مگر چھوٹے موٹے سینسدان تو ہیں ہی۔ یقیناً ہمیں بھی اس بار کوئی نہ کوئی فین یا فینی ضرور ٹکرے گی۔ بلکہ ہم نے یہاں تک سوچ لیا کہ جیسے ہی ہم جہاز پر پہنچے فضائی میزبان ہمیں پہچان کر سیلوٹ کرے گی۔
سر آپ یہاں؟ میرے تو بھاگ جاگ گئے جو آپ کو ایک بار زندہ دیکھ لیا۔ میں تو آپ کی ساری پوسٹس پڑھتی ہوں، عنوان سے پہلے والے نکتہ سے لیکر بریکٹ کھلی ابن فاضل بریکٹ بند۔ تک سب پڑھتی ہوں، بلکہ اپنے منگیتر کو ہندکو میں ترجمہ کر کے کی بھیجتی ہوں۔ سر آپ تو غریبوں کے سقراط ہیں بلکہ چائنہ کے آئن سٹائن ہیں۔ سر آپ تو چھوڑیں جی بورڈنگ والی سیٹ، آپ یہاں وی آئی پی سیٹ پر بیٹھیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
وقت مقررہ پر ہوائی اڈے پر ہم آہستہ آہستہ چلتے تھے۔ رک رک کر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہ اگر ہمارا کوئی بھولا بھٹکا فین غلطی سے ادھر پھر رہا ہو تو اس کو مناسب وقت مل جائے ہمیں پہچاننے کے لیے۔ بلکہ ہم نے احتیاطََ لباس بھی وہی زیب تن کیا جو کہ ہم نے اس تصویر میں کر رکھا تھا جو ہماری ذرائع ابلاغ پر پہچان کی تصویر ہے۔ سارا ائیر پورٹ ہم نے اوپر بیان کی گئی "بے نیازی" سے پار کیا اور ہوتے ہوتے انتظار گاہ میں پہنچے۔
وہاں بھی سارا وقت ہم نے سر جھکا کر فون پر مصروف رہنے کی بجائے سر اٹھا کر فینوں کی سہولت کا بندوبست کیے رکھا۔ جس مہربان پر ذرا سا بھی شک ہوتا کہ یہ ہمارا ابلاغ کا دوست ہو سکتا ہے اس کی طرف پوری توجہ سے دیکھتے۔ بلکہ ہم اپنا منہ آگے کر کے اس کے پاس لے جاتے تاکہ اس بیچارے کو ہمیں پہچاننے میں کوئی دقت نہ ہو۔ مگر مجال ہے جو کوئی سالم تو کیا آدھا ادھورا بھی ٹکرا ہو۔
آخر ہم صور پرواز پھونکے جانے پر جہاز میں سوار ہونے کے لیے بڑھے۔ وہاں بھی ہم نے سارا راستہ آہستہ آہستہ رک کر ٹھہر کر لوگوں کو سہولت دیدار کی مکمل دعوت دی۔ مگر ہوائی میزبان تو کجا کسی صفائی والے نے بھی نہیں پہچانا۔ جہاز میں بھی ہم نے سارا وقت گھومنے والے پیڈسٹل فین کی طرح اپنی گردن اور چہرہ مبارک ہر طرف وقفہ وقفہ سے گھمایا۔ واش روم جانے کے بہانے پورے جہاز میں آہستہ سے چہل قدمی کرتے ہوئے آگے پیچھے کے تین چار چکر بھی کاٹے۔
اپنا فیس بک اکاؤنٹ کھول کر ساتھ والی سواریوں کے سامنے اس کو اوپر نیچے سکرول بھی کیا کہ ہمارے فالورز کی تعداد دیکھ کر ہمارا مداح بن جائے۔ آنکھیں جھپکائے۔ کوئی ایک دو ہی ناز اٹھا لے۔ مگر آخر کار ہم اس نتیجے پر پہنچے کہ ان بچاروں کی بصارت اور بصیرت دونوں کمزور ہیں۔ جہاز سے اتر کر ہم باہر نکلے، میزبان کے آنے میں کچھ وقت تھا ہم نے احتیاطََ واش روم جانے کا فیصلہ کیا۔ ابھی ہم نے دروازہ کھولا ہی تھا تو کیا دیکھتے ہیں کہ سامنے ایک صاحب گرمجوشی سے ہماری طرف بڑھے قریب پہنچ کر یہ پٹاخ سے سیلوٹ کیا۔
ہم نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا کہ چلو پائلٹ، ائر ہوسٹس نہ سہی سول ایوی ایشن کے کسی بڑے افسر نے ہمیں پہچان لیا۔ خوشی سے بیگ اسے پکڑا کر ہم واش روم گئے۔ واپسی پر ہاتھ دھوتے ہوئے دیکھا کہ وہ صاحب تو ہر آنے والے کو ایسے ہی سیلوٹ کر رہے ہیں۔ اور ہمارا بیگ بھی انہوں نے بوجھ سمجھتے ہوئے سامنے والی کھونٹی پر لٹکا رکھا تھا۔ پاس گئے تو انہوں نے ٹشو ہماری طرف بڑھا کر ٹپ کے لیے دانت نکوسے، ہم نے غصے سے بیس روپے دیے اور بیگ اتار کر سڑک کی اور چل دیے۔
اس ملک میں سینسدان کی کوئی قدر ای نئیں۔ اس ملک نے کھ تے سواہ ترقی کرنی۔ ہونہہ