Rozan e Zeest Se
روزن زیست سے
گاڑی ٹھیک ہوگئی ہے صاحب چیک کر لیں۔
شیدے نے ہاتھ اپنے میلے کپڑوں سے "صاف" کرتے ہوئے کہا۔
کتنے پیسے ہوئے؟
اگر ابھی دیتے ہیں تو دو سو اگر دس منٹ بعد دیں گے تو چار سو۔
یہ کیا بات ہوئی ہم نے جیب سے رقم نکالتے ہوئے حیرت سے پوچھا؟
وہ صاحب جی دراصل میرا استاد کبوتروں کی بازی ہار گیا ہے جی آج اس نے سب گاہکوں سے ڈبل پیسے لینے ہیں۔
ہمارے نکلنے سے پہلے استاد بھی آ گیا۔ کیا کام کیا ہے اس گاڑی کا؟ آتے ہی شیدے سے پوچھا۔ استاد جی بریک ٹھیک کی ہے۔ ٹھیک ہے چار سو لے لو۔ بالکل وہی بات ہوئی جو شیدے نے کہی تھی۔ اس کی ذہانت اور راست گوئی نے متاثر کیا۔
شیدے کی ورکشاپ ہمارے دفتر کے عین سامنے تھے۔ آتے جاتے سلام دعا ہو جاتی۔ کبھی کبھار شیدے کو کوئی ضرورت ہوتی تو پوچھ لیتا۔ جب استاد سے پیسے ملتے تو واپس ضرور کرتا۔ ایک روز شیدا آیا تو بہت پریشان دکھائی دے رہا تھا۔ پوچھنے پر کہنے لگا استاد نے مارا بھی ہے اور نوکری سے بھی نکال دیا ہے۔ میرے پاس کھانا کھانے کو بھی پیسے نہیں ہیں۔
ہم نے پوچھا اب کیا کرو گے؟ کہتا کہیں نوکری تلاش کرتا ہوں۔ کہا کام تو سارا تمہیں جانتے ہو شیدے اپنا کام کیوں نہیں کرتے؟
صاحب جی میرے پاس اتنے پیسے کہاں سے آئیں گے کہ ورکشاپ بنا لوں۔
ایسا کیوں نہیں کرتے کہ جتنے جاننے والے گاہک ہیں ان سے رابطہ کرو، جو میرے جاننے والے ہیں ان کو بھی میں کہہ دیتا ہوں، جب تک ورکشاپ نہیں بنتی گھر جا کر گاڑیاں ٹھیک کر آیا کرو۔ مشورہ اس کے دل کو لگا۔ ایک چھوٹا فون، سم اور ضروری اوزار لیکر دیے اور سب دوستوں کو کال کر کے اس کا نمبر نوٹ کروا دیا۔
ہم بھول گئے۔ وہ ایک ماہ بعد آیا کہتا صاحب تینتیس ہزار کمایا ہے ایک ماہ میں، مگر تیرہ ہزار رکشوں کا کرایہ لگ گیا۔ ہم نے پوچھا کتنے بچے ہوئے؟ کہتا پندرہ ہزار۔ کہا لاؤ۔ اس نے فوراً نکال کر تھما دیے۔ ایک جاننے والے کو کال کی، اس کو وہاں بھیجا جا کر نئی موٹر سائیکل لے لو اور موٹر سائیکل کی بقیہ رقم اگلے ماہ واپس کر جانا۔ بیس دن بعد ہی وہ موٹر سائیکل کا ادھار چکتا کر گیا۔ چند سال ہوئے، آج ماشاءاللہ ایک بڑی ورکشاپ کا مالک ہے۔ مزے میں ہے۔ ہنر اور اپنا کام خوشحال زندگی کی کنجی ہے۔
ایک دوست کی روزن زیست سے ایک جھلک۔