Qazia
قضیہ
میں دس بارہ بار کراچی گیا ہوں گا، اور وہ بھی ایک یا دو دن کیلئے۔ اور بھی لاکھوں میرے جیسے ہوں گے اور بہت سے لاہور باسی تو ایسے ہوں گے جو عمر بھر کبھی کراچی گئے ہی نہیں۔ میں بہت حیران ہوتا ہوں کہ پھر بھی کراچی میں لوگوں کے عمومی رویے جیسے ٹریفک کی بے ترتیبی، معاشرتی بےحسی، تن آسانی، منفی سوچ یہاں تک کہ محکمانہ بدعنوانی بالکل لاہور والوں جیسے کیوں ہیں؟ اور صرف کراچی اور لاہور پر ہی کیا موقوف سارے ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں سب لوگوں کی اخلاقی گراوٹ قریب قریب ایک جیسی ہے۔
عمومی طور پر ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں لیکن غور کریں کہ دور دور شہروں میں رہتے ہوئے ہم نے ایک جیسی خرابیاں ایک ساتھ کیسے سیکھ لیں؟ تھوڑا پیچھے چلتے ہیں۔ ستر اسی کی دہائی میں ہمارے رویے ایسے نہ تھے۔ بدعنوانی اس قدر سرائیت نہ کی تھی۔ لوگوں میں برداشت تھی۔ ایک دوسرے کا احترام تھا، پھر رفتہ رفتہ ہم اخلاقی طور پر اس مقام تک پہنچ گئے جہاں ہم اب ہیں۔ سارے ملک میں ایک ساتھ خرابی بڑھی کیسے؟ جب کہ ہم دور دور رہتے ہوئے ایک دوسرے سے ملتے نہیں تھے۔ سماجی ذرائع ابلاغ بھی نہ تھے کہ خرابیوں اور چالاکیوں کی تشہیر قومی نشریاتی رابطے پر ہوتی۔ پھر کیسے ہم پورے ملک میں ایک ساتھ خراب ہوتے گئے؟
اس قضیہ کو سمجھنے کیلئے چلیں کچھ دیر کیلئے سرحد پار چلتے ہیں۔ سوست کے اس طرف چینی ہیں۔ سرحد کے قریب ترین شہر ارمچی اور وہاں سے چار ہزار کلومیٹر دور شنگھائی میں لوگوں کے رویے ایک جیسے ہیں۔ حالانکہ یقیناً نوے فیصد ارمچی کے باشندے عمر بھر شنگھائی نہیں گئے ہوں گے۔ اور پھر جب وہ ایک خراب سست، اور نشہ آور قوم سے دنیا کی سب سے محنتی اور تیز رفتار ترقی کرنے والی قوم میں تبدیل ہو رہے تھے تو چین کے سارے علاقوں میں ایک ساتھ رویوں میں بہتری آ رہی تھی۔
اب دیکھیں گلگت سے چند سو کلومیٹر پر ارمچی میں لوگ شنگھائی جیسے ہیں اور گلگت کے لوگ دو ہزار کلومیٹر والے کراچی جیسے ہیں۔ اس سارے تجزیہ سے ایک ہی بات سمجھ آ رہی ہے کہ لوگوں کے رویے صرف اس چیز کے تابع ہیں جو ان میں مشترک ہے، اور وہ ہے حکومت، اور حکومت میں بھی قانون کی حکمرانی۔ انسانوں میں جبلی طور خراب ہونے کا بے پناہ میلان ہوتا ہے۔ جب تک ان کو قانون کا خوف نہ ہو تب تک انہیں خراب سے خراب تر ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ سو قانون کی حکمرانی قائم کرنے والی حکومت کے بغیر اصلاح احوال کا امکان صفر فیصد سے زیادہ نہیں۔