Pur Aitemad Jahil
پراعتماد جاہل
یہ ان دنوں کی بات ہے جب جامعہ میں زیر تعلیم تھے کہ ہمیں قوانین فطرت اور انسانی رویوں کے متعلق سیکھنے کا شوق ہوا۔ ایک روز کھلے میدان میں بیٹھے ہوئے دیکھا کہ دور آسمان اور زمین ملتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ ذہن میں فوراً جو فقرہ ابھرا وہ تھا Extremes are alike۔ گویا "انتہائیں ایک سی ہوتی ہیں"۔ کہ آسمان رفعت و بلندی کی علامت اور زیرپا زمین پستی کا استعارہ۔ مگر اب اس مفروضے کو قانون بنانے کے واسطے ثبوت درکار تھے۔
پہلا ثبوت جو ملا وہ تھا خوشی کے آنسو۔ گویا انتہائے طرب اور انتہائے الم میں ایک سی کیفیت۔
Extremes are alike۔
لیکن ابھی اور بھی ثبوت چاہیے تھے۔ انہی دنوں کسی بلند پہاڑی مقام پر ہائیکنگ کے لیے جانا ہوا۔ جلد برف کی منعکس شعاعوں سے جل گئی جسے snow burning کہتے ہیں۔ احساس بھی جلن کا سا تھا۔ ثبوت کے متلاشی ذہن کو ایک اور ثبوت ملا کہ گرم اور ٹھنڈے کی انتہائیں ایک سا اثر رکھتی ہیں۔
Extremes are alike۔
پھر اس کے بعد انسانی رویوں کے بہت سے اور پہلو دیکھے۔ انتہائی پڑھے لکھے لوگوں کو بالکل ان پڑھ لوگوں سے دست و گریباں ہوتے دیکھے۔ انتہائی نچلے طبقے اور انتہائی امیر طبقے میں اختلاط مرد و زن کی ایک سی بے نیازی دیکھی۔ انتہائی مذہبی اور انتہائی غیر مذہبی طبقے کو اپنے خیالات پر ایک سا سخت گیر اور متشدد پایا تو ذہن میں اس کو ہمیشہ کے لئے قانون بنا دیا کہ
Extremes are alike۔
ظاہر ہے کہ اس وقت ہماری یہ ساری غیر اہم سی سوچ بچار اور خام کارگزاری محض اپنی ذاتی راہنمائی کے لیے تھی۔ لیکن بعد میں جانا کہ انسانی رویوں اور نفسیات پر انتہائی سائنسی بنیادوں پر تحقیق کرتے ہوئے ایک امریکی یونیورسٹی شعبہ نفسیات کے ایک پروفیسر ڈیوڈ David Dunning ڈوننگ اور ان کے ایک شاگرد جسٹن کروگر Justin Kruger نے ایسا ہی ایک اور نتیجہ اخذ کیا ہے جسے آج دنیا Dunning Kruger effect کے نام سے جانتی ہے۔ یہ تحقیق انسانی رویوں میں Extremes are alike کی سب سے زبردست اور خوبصورت مثال ہے۔ اور ہمارے عمومی معاشرتی رویوں اور بیشتر مسائل کی درست ترین نشاندہی ہے۔
دیکھیں عام طور پر خیال کیا جاتا ہے انسانوں میں اعتماد علم سے آتا ہے۔ اور جیسے ہی کسی میدان کا علم بڑھتا ہے اس خاص میدان میں انسان کا اعتماد بھی بڑھتا ہے۔ لیکن اس علم اور اعتماد کے اضافہ کے دوران ایک عجیب اور انتہائی حیران کن تعلق کی نشاندہی اس ڈوننگ کروگر ایفکٹ میں کی گئی۔ اور وہ یہ کہ جیسے ہی انسان تھوڑا سا، جی بالکل تھوڑا سا گویا محض تعارفی علم حاصل کرتا ہے اس کا اعتماد بہت ہی زیادہ بلندی پر چلا جاتا ہے۔
آسان لفظوں میں یوں سمجھ لیں کہ جو کسی فیلڈ کے چار لفظ سیکھ لیتا ہے یا دو مضامین پڑھ لیتا ہے اس کو ایسا لگتا ہے جیسے وہی اس میدان کا ماہر ترین انسان ہے۔ اب جیسے ہی اس سطح سے تھوڑا سا مزید علم حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اسے اداراک ہوتا ہے کہ اوہ ہو میں تو بالکل ہی کم علم تھا۔ یہاں تو معلومات کا ایک جہاں ہے۔ تو اس کا سارا مصنوعی اعتماد ایک دم ختم ہو جاتا ہے۔
پھر علم کے اضافے کے ساتھ ساتھ آہستہ آہستہ اعتماد بڑھتا ہے حتیٰ کہ جب انسان کسی ایک میدان میں مکمل مہارت حاصل کر لیتا ہے تب جا کر اس کا اعتماد اس کم علمی کے اعتماد کے برابر ہوتا ہے۔ گویا کسی ایک میدان سے صرف تعارف رکھنے والے شخص اور اس کے ماہر کا اپنی ذات پر اس میدان میں خود کو ماہر سمجھنے کا اعتماد ایک سا ہوتا ہے۔
اب ہوتا کیا ہے۔ لامحالہ جب وہ کوئی شخص انتہائی تعارفی علم رکھتے ہوئے غلط طور پر خود کو کسی میدان میں بہت بڑی توپ چیز سمجھتا ہے تو دوسروں سے بات کرتے ہوئے وہ ان کو اپنے سے کم تر خیال کرتا ہے اور اب اگر دوسری طرف والا شخص بھی کل علمی کی اسی سطح پر ہو تو وہ بھی خود کو ماہر ہی تصور کر رہا ہو گا۔ لہٰذا دو پراعتماد جاہل ایک دوسرے سے الجھ رہے ہیں۔
چونکہ علم کم ہے دلائل کی تنگی ہے تو بات جلد علم سے ذاتیات اور سب و شتم پر آ جاتی ہے اور یہی ہمارا روزمرہ کا مشاہدہ ہے۔ سماجی ذرائع ابلاغ پر بھی اور اردگرد بھی۔ ہمیں ایسا لگتا ہے ہم بحیثیت مجموعی ڈوننگ کروگر ایفکٹ کے مارے ہوئے پراعتماد جہلاء ہیں۔ صرف سیاست، مذہب، اور عالمی امور میں ہی نہیں اپنے کام اور نوکری میں بھی ہمارا یہی حال ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہم بہت ہی کم عالمی معیار کی کوئی مصنوعات بنا پا رہے ہیں اور بہت ہی کم عالمی معیار کی خدمات دے پا رہے ہیں۔ جس کا حتمی نتیجہ ہماری معاشی بدحالی کی صورت میں بھی بھگتنا پڑ رہا ہے۔ اس جاہلانہ اعتماد سے چھٹکارا پانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اپنے میدان میں زیادہ سے زیادہ علم حاصل کریں۔ زیادہ سے زیادہ مہارت پائیں۔ اور اپنی فیلڈ کے علاوہ دیگر معاملات میں کم سے کم دخل اندازی کریں۔ پرسکون بھی رہیں گے اور خوشحال بھی۔