Friday, 29 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Ibn e Fazil/
  4. Potato Flakes

Potato Flakes

پوٹیٹو فلیکس

پاکستان میں اوسطاً پچاس لاکھ ٹن آلو پیدا ہوتا ہے جبکہ ہمارا استعمال تیس لاکھ ٹن سالانہ کے قریب ہے۔ پچھلے سال ہم نے تقریباً چھ لاکھ ٹن آلو برآمد کیے۔ اس حساب سے اگلے سال کے بیج کو چھوڑ کر کوئی سات سے دس لاکھ ٹن آلو ہمارے پاس سالانہ وافر ہوتا ہے۔ جس کا بیشتر حصہ یقیناً ضائع ہوتا ہوگا۔ آلو کے موسم میں آلو کی اس بہتات کہ وجہ سے موسم میں اس کے منڈی میں نرخ دس روپے فی کلو تک چلے جاتے ہیں۔

دوسری طرف آپ جان کر حیران ہوں گے کہ سال دو ہزار انیس میں دنیا بھر میں چھ ارب ڈالر کا آلوؤں کا چورا بکا۔ آلوؤں کا چورا یعنی (potato flakes) ہر اس کام کیلئے استعمال کیا جاتا ہے جس کیلئے تازہ آلوؤں کی پیسٹ استعمال ہوتی ہے۔ اس سے آلو کے کباب اور چپس تو بنائے ہی جاتے ہیں ساتھ ہی ہر قسم کے شوربہ کو گاڑھا کرنے کے لیے، دودھ اور مشروبات کو گاڑھا کرنے کے لیے، آئس کریم اور چاکلیٹ وغیرہ کی شکل اور ذائقہ بہتر کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔

مزید حیرانی کی بات یہ ہے کہ بھارت میں سینکڑوں چھوٹی بڑی فیکٹریاں سالانہ لاکھوں ٹن خشک آلوؤں کا چورا بنا کر دنیا بھر کے ممالک کو برآمد کر رہی ہیں۔ ستم بالائے ستم یہ کہ بھارت سے درآمدات پر پابندی سے پہلے پاکستانی تاجران بھی سینکڑوں ٹن سالانہ خشک آلوؤں کا چورا سالانہ بھارت سے منگواتے رہے۔ (دستاویزات تصاویر میں)۔ جبکہ دوسری طرف وطن عزیز کے ننانوے فیصد لوگ آلوؤں کی اس بیش قدر مصنوعہ کے نام سے بھی واقف نہیں۔ جبکہ لاکھوں ٹن آلو سالانہ ضائع ہو رہے ہیں۔

آلو میں اوسطاً پچہتر فیصد نمی ہوتی ہے۔ یوں اگر آلوؤں کو خشک کیا جائے تو چار کلوگرام آلو سے ایک کلو آلو کے فلیکس بنائے جا سکتے ہیں۔ پچھلے سال سیزن میں انکی تھوک کی قیمت دس روپے کلو گرام تھی۔ اس سال اگر بیس بھی رہے تو گویا اسی روپے کے خام مال سے ایک کلو چورا تیار ہو جائے گا۔ اگر اتنا فی کلوگرام بنانے کا خرچ بھی آئے (جو کہ ہر صورت اس سے کم آئے گا)۔ تو بھی قریب اسی فیصد منافع پر برآمد کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ عالمی منڈی میں اس کی قیمت ایک اعشاریہ تین ڈالر سے ایک اعشاریہ پانچ ڈالر تک ہوتی ہے۔ گویا کم از کم تین سو روپے فی کلوگرام۔

یوں تو اس کے درمیانے سائز کے پلانٹ پانچ سے آٹھ ٹن روزانہ استعداد کے ہوتے ہیں۔ جن کی لاگت دس کروڑ سے بیس کروڑ تک ہوتی ہے۔ اور اوسطاً پچیس فیصد ریٹ آو ریٹرن پر چلتے ہیں۔ مگر میرے خیال میں اسے بہت آرام سے گھریلو صنعت کے طور پر بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ آلو سے چورا بنانا انتہائی آسان عمل ہے۔ انہیں چھیل کاٹ کر ابال لیں۔ اچھی طرح ابلے آلوؤں کو پیس کر پیسٹ بنا لیں۔

اس پیسٹ کو فیکٹریوں میں تو سٹین لیس سٹیل کے گھومتے ہوئے رولز پر کہ جن کے اندر سے بھاپ گزاری جا رہی ہوتی ہے، چپکا کر خشک کیا جاتا ہے۔ انہیں potato drum dryers کہتے ہیں۔ یہ چھوٹے پیمانے پر بھی بنائے جا سکتے ہیں۔ لیکن اس پیسٹ کو ڈی ہائیڈریٹر کی ٹرے پر باریک تہہ کی صورت میں لگا کر خشک کرنے سے بھی چورا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ پہلے اس سے باریک پاپڑ نما چیز بنے گی جسے تھوڑا سا پیسنے پر چورا بن جائے گا۔ گھر میں خواتین فارغ وقت میں دس بیس کلو چورا روزانہ بنا سکتی ہیں۔ جس سے انکو ہزار سے دو ہزار کی فالتو آمدنی ہونے کی توقع ہے۔

اسی طرح کچھ کسان مل کر کم سرمایہ سے چار پانچ سو کلو روزانہ کے یونٹ لگا سکتے ہیں۔ آلو برآمدگان خشک آلو کے چورے کے بھی آرڈر پکڑیں۔ اور ان چھوٹی فیکٹریوں سے معیاری مال لیکر باہر بھجوائیں۔ جو تاجران باہر سے منگوا کر پاکستانی ہوٹلوں اور فوڈ کمپنیوں کو سپلائی کر رہے تھے وہ بھی مقامی لوگوں سے مال خریدیں۔ یقین کریں دو چار سال میں اربوں روپے کی نئی صنعت کھڑی ہو جائے گی جس سے ہزاروں لوگوں کو باعزت روزگار ملے گا۔ انشاءاللہ۔

Check Also

Nasri Nazm Badnam To Hogi

By Arshad Meraj