Friday, 29 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Ibn e Fazil
  4. Phone Number

Phone Number

فون نمبر

پوچھا فون نمبر کیا ہے آپ کا؟

عرض کیا، پچہتر لاکھ اٹھاسی ہزار چار سو دو۔

کہتے بھائی تمہارے اثاثہ جات نہیں پوچھے فون نمبر مانگا ہے۔

عرض کیا جی یہ وہی تو ہے 7588402۔

کہتے کہاں آنا ہے؟ عرض کیا دھرم پورہ ریلوے گیٹ پر آ کر کال کریں۔ دھرم پورہ میں کون سا ریلوے گیٹ ہے؟ ارے بھائی ریلوے پھاٹک ہی کہنا کیوں ضروری ہے۔ گھر کے دروازے کو پھاٹک کہا کبھی۔

دیکھیں ذرا سا ہم چیزوں کو مختلف انداز میں پیش کرتے ہیں تو ہمارا دماغ انہیں قبول کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ کیوں کہ اس کو سالہا سال سے ہم نے عادت ڈال رکھی ایک سی چیزیں دیکھنے، سننے کی۔ اور سب سے بڑی عادت جو ڈال رکھی ہے وہ ہے "نہ سوچنے کی"۔ سارے جسم کی طرح دماغ بھی سستی اور تن آسانی کا رسیا ہے۔ اس کا بھی جی نہیں کرتا کہ نئے کام کرے، نئی چیزیں سوچے، نئے تفکرات کرے اور یہ چلن ہم نے بطور معاشرہ اپنا رکھا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ سالہا سال سے یہاں کچھ نہیں بدلا۔ کچھ بہتر نہیں ہوتا۔ تعلیم ہی کو لے لیجیے۔ بس سب عادی ہیں۔ پرائمری، مڈل، میٹرک، ایف اے، بی اے، ٹھک ٹھک ٹھک، اور پھر آدھی زندگی گزار کر ہوش آتی ہے۔ اوہو اس کا تو کوئی فائدہ ہی نہیں۔ کوئی آٹھویں میں دسویں حتیٰ کہ بارہویں میں بھی سوچنے پر آمادہ نہیں کہ کیو‍ں؟ کیا افادیت ہے اس کی۔ کیونکہ دہائیوں سے دماغ میں بٹھا رکھا۔ اور دماغ کچھ نیا سوچنے کو تیار نہیں۔ عادت جو نہیں۔

جس قدر تیز رفتاری سے دنیا آج بدل رہی ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔ سو جس قدر تیز رفتاری اور معاملات کو گہرائی میں جا کر دیکھنے اور سوچنے کی آج ضرورت ہے وہ بھی پہلے کبھی نہیں تھی۔ اب جو شخص، معاشرہ یا ملک سوچنے کے عمل میں پیچھے رہ جائے گا باالیقین محتاج و مجبور ہو جائے گا۔ خود بھی غور کیجیے اپنی آنے والی نسل کو بھی سوچنے کی عادت ڈالیے۔ اساتذہ، والدین اور انٹلیکچوئلز کی ذمہ داری سب سے زیادہ ہے۔

Check Also

Jab Aik Aurat Muhabbat Karti Hai

By Mahmood Fiaz