Namkeen Shikway
نمکین شکوے
ذہنی خلل متنوع ہو سکتے ہیں۔ جیسے ہمارے ذہن کا خلل ہمیں اکساتا ہے کہ لوگ نئے کام سیکھیں اور خوشحال ہوں۔ اور اہل علم و حکمت کی تمام تر پند و نصائح اور دانشمندان ملت کی وعیدوں کے باوجود ہمیں لگتا ہے کہ یہی کام کرنے کا ہے سو ہم اپنا سیاپہ مسلسل اور پورے طمطراق کے ساتھ ڈالتے رہتے ہیں۔ اسی طرح مختلف دوستوں کو مختلف "خلول" ہوتے ہیں۔
ہمارے کچھ دوست ایسے ہیں جن کو لگتا ہے کہ اگر صبح صادق کے وقت ہمیں صبح بخیر نہیں کہا تو ہماری گھڑی پر تاریخ ہی نہیں بدلے گی۔ یہ دوست اپنی اس عمل خیر پر اتنی پختگی سے کاربند رہتے ہیں کہ اگر ہمیں یہ جاننا ہو کہ ہم نے فون کس تاریخ کو خریدا تھا تو ہم ان کا پہلا میسیج دیکھ کر باآسانی پتہ لگا لیتے ہیں۔ اور ہمیں اس بات پر اس قدر پختہ یقین ہوتا ہے کہ سرفراز تو دھوکہ دے سکتا ہے یہ نہیں دے سکتے۔
ایک صاحب دوپہر کے وقت ہمارا ایمان پختہ کرتے ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ ہم سا کوئی خرابہ نہ ہوگا زمانے میں۔ ظہر کے وقت ان کا بھی میسیج ایسے ہی باقاعدگی سے آتا ہے کہ بجلی کا بل کیا آتا ہوگا۔ ان کو لگتا ہے کہ اگر ہمارے اصلاح عمل کے اہتمام میں کوئی چوک ان سے سرزد ہوگئی تو ہم اور وہ دونوں معتوب حق ٹھہریں گے۔ ایک دوست ہیں وہ شاید کہیں کمانڈو رہے ہیں۔ میسیج نہیں کرتے پیغامات کا پورا برسٹ مارتے ہیں اور وہ بھی روزانہ۔ عموماً صبح کسی وقت فون پڑے پڑے یوں بنا وقفہ یوں تھرکنے لگتا ہے۔ شروع شروع میں تو ہم گھبرا جاتے تھے کہ شاید ہمارے فون کو نمونیا ہوگیا ہے یا مرگی کا دورہ پڑ گیا ہے۔ مگر اب ہم اور فون دونوں عادی ہو گئے ہیں۔
ایک مہربان کی تو پوچھیں بھلی۔ ادھر فجر پڑھ کے فون پکڑا ادھر ان کی دھمکاتی، ڈراتی تحریر سامنے۔ جیسے کوئی بزرگ کھیلتے بچوں کے شور سے نالاں ڈنڈا لے کر ان کے پیچھے بھاگ رہا ہو۔ جرابیں دھو کر پہنا کرو، بال کنگھی کیے بنا ہی گھر سے نکل کھڑے ہوتے ہیں، چوتھے روز ناخن اور ساتویں روز مونچھیں نہ تراشنے والے ہماری بس سے اتر جائیں وغیرہ وغیرہ۔ نہیں معلوم کوئی طبی مسئلہ ہے یا طبعی۔
شکوہ ہم نے کیا جواب شکوہ آپ لکھیں۔ ہماری یا کسی اور کی کس ادا سے آپ نالاں ہیں کھل کر بتائیں۔