Miswak Aur Maeeshat
مسواک اور معیشت
بچپن سے سنتے آئے ہیں کہ آقا کریم ﷺنے فرمایا "مسواک کرکے دورکعت پڑھنا بغیر مسواک کے ستر رکعت کے برابر ہے "آقا کریم ﷺ مسواک کا بہت اہتمام فرماتے اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ اجمعین کو بھی بہت تاکید کرتے۔ ایک روایت کے مطابق آقا کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ" اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ میری امت مشقت میں پڑجائے گی۔ تو انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیتا" اس کے علاوہ بھی بہت سی تاکید ہے۔
اب اگر ہمارے اندر خوئے اطاعت ہوتی تو سوچیں ہمیں کم بیش بیس کروڑ مسواک چاہیے ہوتیں ۔ روزانہ یا دوسرے دن یا ہفتہ بھر میں ایک بار بھی بیس کروڑ مسواکیں فراہم کرنے کیلئے کس قدر منظم شجرکاری کرتے۔ یقیناً ہمارے معاشرے کا ہر فرد درختوں کی ضرورت اور افادیت سے آگاہ ہوتا، ان میں دلچسپی لیتا ان کی دیکھ بھال کرتا۔ میرا ایسا ماننا ہے کہ مسواک کا حکم فی الحقیقت شجرکاری کا حکم ہے۔
پھر اگر ہم مسواک پر مزید تحقیق کرتے تو جانتے کہ مسواک کے کون سے اجزاء ہمارے دانتوں کی صحت کے لیے مفید ہیں اور کون کون سے ہماری صحت کیلئے۔ جیسے پیلو کی مسواک میں موجود کیمیائی اجزاء نہ صرف یہ کہ منہ میں موجود نقصان دہ بیکٹیریاز ختم کرنے کی صلاحیت ہے بلکہ یہ انہیں دوبارہ لمبے عرصہ تک بڑھنے سے بھی روکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ اس مسواک میں اینٹی آکسیڈنٹس، پلاک روکنے والے اجزاء، منہ کو صاف کرنے والا قدرتی صابن سیپونین خوشبو پیدا کرنے والے اجزاء وغیرہ شامل ہیں ۔
اب جب کہ جدید علم کے باعث ہم جانتے ہیں کہ ایک ہزار سے پندرہ سو پی پی ایم فلورائیڈ والی ٹوتھ پیسٹ دانتوں کو گرنے سے روکنے اور ان میں کھوڑ بننے کے عمل کو کم کرنے کیلئے بہت ضروری ہے تو ہم شاید کوشش کرتے کہ کسی طرح ایسے پودے تیار کیے جائیں جن میں قدرتی طور پر اس مقدار میں فلورائیڈ موجود ہوں ۔
دوسری طرف زراعت سے متعلق لوگ جانتے ہیں فلورائیڈ کی ایک حد سے زیادہ مقدار زمین کو بنجر کردیتی ہے۔ پودوں کی نشوونما کو آہستہ کردیتی ہے۔ زمین میں موجود انسان دوست بیکٹیریاز کو ختم کردیتی ہے۔ اب دیکھیں اگر ہم تحقیق و تفکر کے رسیا ہوتے تو ہم جدید جینیاتی عمل سے ایسے درخت بناتے جو زمین سے فلورائیڈ لیکر تنوں اور شاخوں میں پہنچاتے۔ جو نہ صرف ہمیں بہترین مسواکیں فراہم کرتے بلکہ بنجر زمینوں پر پیداوار دیتے اور آہستہ آہستہ زمین سے ساری فلورائیڈ نکال کر اسے زرخیز زمین میں بدل دیتے۔
ہم اگر مسواک کے عادی ہوتے تو شجر کاری کے رسیا ہوتے۔ ہمارے گاؤں اور گھروں میں کوئی جگہ ایسی نہ ہوتی جہاں درخت نہ ہوتے۔ ہمارے گاؤں اور شہروں میں میلوں میل سڑکوں کے کنارے گھنے درختوں کی قطاریں ہوتیں ۔
ہم نے ایک روز تھوڑا سا حساب لگانے کی کوشش کی تو یہ عقدہ کھلا کہ ہماری ہائی ویز اور موٹرویز کہ جن کی کل لمبائی پندرہ ہزار کلومیٹر سے زائد ہے، کی کناروں پر جو جگہ چھوڑی گئی ہے اس جگہ کو پبلک پرائیویٹ سیکٹر کی مدد سے بھر پور طریقے سے درخت لگا کر استعمال کیا جائے تو ہم سالانہ سو ارب روپیہ تک کماسکتے ہیں ۔ ایسے حالات میں جب ہمارا پورے ملک کا تعلیم کا بجٹ تراسی ارب سالانہ ہے یقینا اگر سو ارب مزید ہمارے پاس ہو جو ہم اپنے لوگوں کو ہنرمند بنانے پر لگا سکیں تو بخدا ہم چند سال میں وطن عزیز میں معاشی انقلاب برپا کر سکتے ہیں ۔
اگر ہم ایسا کوئی قانون بنا لیں کہ جس شخص کی سڑک کے ساتھ جتنی جگہ ہے اتنی ہی ملحقہ سرکاری جگہ اس کے ذمہ ہے اور وہ اس پر درخت لگائے اور ان کی حفاظت کرے اور جب درخت بیچیں جائیں تو آدھی آمدن اس کسان کو ملے اور آدھی سرکار کو تو یقیناً ہر شخص آمادہ ہوجائے گا۔ اگر ہم علاقہ کی آب وہوا کی مناسبت سے ہائبرڈ کیکر شیشم، ساگوان وغیرہ لگائیں تو آمدن ہمارے توقع اور اندازہ سے کئی گنا زیادہ بھی ہوسکتی ہے۔ اور اگر چھوٹی رابطہ سڑکوں اور ریلوے لائنوں کو بھی شامل کرلیا جائے تو شاید ہمارے پاس سالانہ کئی سو ارب روپے کا وافر بجٹ ہو جسے اگر صرف تعلیم وتربیت اور تحقیق کیلئے مختص کردیا جائے تو کاش ہم ایسا کرسکیں ۔۔
اے بسا آرزو کہ خاک شدہ