Miss You Always
مس یو آلویز
اس ادارے میں ایک خوبصورت روایت تھی کہ اپریل کے مہینے میں جب گندم کی فصل آتی، سب ملازمین سے ان سے سال بھر کی گندم کی ضرورت کی بابت پوچھا جاتا۔ پھر اس قدر گندم منگوا کر سب ملازمین کو دیدی جاتی۔ اس کی قیمت سال بھر میں، ہر ماہ برابر اقساط کی صورت تنخواہ سے منہا کر لی جاتی۔ یوں ملازمین سال بھر کی اناج کی ضرورت سے بے فکر ہو رہتے اور قیمت غیر محسوس طور پر ادا ہو جاتی۔
سترہ اکتوبر کو ادارے کے ایک بزرگ ملازم کیشئر کے پاس آتے ہیں اور تقاضہ کرتے ہیں کہ انہیں بتایا جائے کہ ان کے ذمہ گندم کا کتنا قرض بقایا ہے؟ کیشئر حیرت سے ان کی طرف دیکھتے بادل ناخواستہ رجسٹر کھول کر ایک پرچی پر بقایا رقم لکھ دیتا ہے۔ بزرگ مطلوبہ رقم ادا کر کے رسید حاصل کرتے ہیں اور اسے جیب میں رکھ لیتے ہیں۔
اگلی صبح اٹھارہ اکتوبر ناشتہ کی میز پر چائے پیتے ہوئے وہی بزرگ اپنے جواں سال بیٹے کو رسید نکال کر دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ کل گندم کا قرض ادا کر دیا گیا تھا۔ اب میرے ذمہ کوئی قرض نہیں۔ بیٹا حیرت اور فکر سے بابا کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھتا ہے۔ بابا یہ کیا بات ہوئی؟ بابا حسب معمول دلآویز مسکراہٹ سے جواب دیتے ہوئے دفتر کے لیے اٹھ جاتے ہیں۔ بیٹا فیکٹری چلا جاتا ہے۔
دوپہر ڈیڑھ بجے بیٹا کسی کام سے واپس فیکٹری پہنچتا ہے تو دیکھتا ہے سب ملازم گھبرائے سے پریشان ہیں۔ وہ ابھی معاملہ سمجھنے کی کوشش میں ہے کہ ساتھ والی فیکٹری کے مالک جو ایک جہاندیدہ انسان ہیں اس کے پاس آتے ہیں۔ اسے کرسی پر بٹھا کر بڑے تحمل اور طریقے سے آگاہ کرتے ہیں کہ بیٹا آپ کے والد صاحب ڈاکوؤں کی گولی لگنے سے شہید ہو گئے ہیں۔ اللہ اکبر، دیکھیں کیسے اللہ کریم کے برگزیدہ بندے اللہ کریم کے حضور پیش ہوتے ہوئے اپنا دامن اجلا لیکر جاتے ہیں قرض اور گناہوں کے بوجھ سے آزاد۔
میرے بابا جان محمد فاضل کی آج بائیسویں برسی ہے۔ اللہ کریم ان پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائیں اور انہیں اپنی جنتوں میں اعلیٰ مقام عطا فرمائیں۔
بابا جان مس یو آلویز۔