Lassi Ki Goliyan Aur Tarbooz Ka Powder
لسی کی گولیاں اور تربوز کا پاؤڈر
سکول کے زمانہ میں ہماری سب سے بڑی تفریح چھٹیوں میں بہت پیار کرنے والی پھپھو جان کے گھر جانا ہوتا تھا۔ منڈی بہاؤ الدین کے قریب اس چھوٹے سے گاؤں کے قریب ہی کچھ افغانیوں کی ایک خیمہ بستی سی آباد تھی۔ ان افغانیوں کے درجنوں بچے صبح صبح گاؤں کے سب گھروں سے چاٹی کی لسی اکٹھا کیاکرتے۔ میں نے جاننے کی کوشش کی کہ اس بڑے پیمانے پر یہ لوگ اس لسی کا کیا کرتے ہیں ۔ تو جواب ملا کہ اس کی گولیاں بناتے ہیں ۔
حیرت اور اشتیاق کی تسکین کیلئے ان کی بستی میں جاکر دیکھا۔ عجیب مناظر تھے۔ ترپال کے بڑے بڑے مستطیل ٹکڑے چاروں کونوں سے رسیوں سے باندھ کر ہوا میں معلق کیے گئے تھے، اور ان پر چاٹی کی لسی ڈالی گئی تھی، جس کا پانی اس ترپال کے موٹے کپڑے سے چھن چھن کر نیچے گر رہا تھا، اوراس میں سفید ٹھوس مادہ گاڑھے سے پیسٹ کی شکل میں جمع ہورہا تھا۔ اس پیسٹ کو پھر زمین پر بچھے پلاسٹک کے ٹکڑوں پر ڈال۔ کر دھوپ کی مدد سے خشک کیا جارہا تھا۔ جن سے مطلوبہ خشکی آجانے پر بعد میں گولیاں بنالی جاتیں ۔
یہ مفت کی لسی کی، کسی ایندھن یا مشین کی مدد کے بغیر بنائی گئی گولیاں افغانستان بھیج دی جاتی جہاں کے لوگ انہیں مہنگے داموں خرید کر پانی میں حل کرکے بطور مشروب استعمال کرتے۔ آج جب میں اس مشروب کا غذائی اعتبار سے تجزیہ کرتا ہوں تو ان افغانیوں کی دانش پر حیرت ہوتی۔
میرے خیال میں روز مرہ مشروبات میں چاٹی کی لسی سے بہتر کوئی مشروب نہیں۔ دودھ کی ساری غذائیت وہ بھی چکنائی کے بغیر اور پھر اس پر پروبائیوٹکس کا سہاگہ۔ میرا یقین کریں کہ دنیا کا مہنگے سے مہنگا سکمڈ ملک بھی اس مشروب کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ خاص طور وزن کو قابو میں رکھنے کی سعی کرنے والے خواتین وحضرات کیلئے کسی نادر تحفہ سے کم نہیں۔ اگر اسے حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق خشک کرلیا جائے تو پورے اعتماد بلکہ فخر کیساتھ دنیا بھر مہنگے داموں بیچا جاسکتا ہے۔
آج مجھے یہ بات تب یاد آئی جب پشاور سے ہمارے ایک بہت ہی محترم دوست کا بھیجا خشک تربوز اور خشک خربوزہ کا تحفہ ملا اس اطلاع کے ساتھ موصول ہوا کہ یہ افغانستان سے آئے ہیں۔ اور میں افسردہ بیٹھا یہ سوچ رہا ہوں کہ تربوز اور خربوزہ بطور خاص پنجاب کی فصل ہے اور سیزن میں اس قدر بہتات ہوتی ہے۔ کہ چھوٹے سائز کے تربوز بکریوں اور بھینسوں کو ڈالے جاتے ہیں۔ جبکہ افغانی انہیں خشک کرکے ایک ہزار روپے کلو فروخت کر رہے ہیں۔
تربوز میں پچانوے فیصد پانی ہوتا ہے جبکہ خشک تربوز میں دس فیصد پانی۔ مطلب چھ کلو تربوز خشک ہوکر ایک کلوگرام رہ جائے گا۔ دس روپے کلو والا سالم تربوز چھیل کاٹ کر پندرہ روپے پڑے تو نوے روپے کلو میں خشک ہوگا۔ مزدوری اور پیکنگ بھی ڈال لیں تو بھی ایک سو بیس پچیس روپے کلو میں تیار ہے۔ اس وقت پشاور کے بازاروں میں ایک ہزار روپے کلو بک رہا ہے۔
اگر تربوز کو مزید خشک کرلیا جائے کہ اس میں ایک سے تین فیصد نمی بچے تو اس کا پاؤڈر بنایا جاسکتا ہے۔ جسے جب جی چاہے پانی گھول کر مزیدار قدرتی فرحت بخش مشروب بغیر دقت ایک منٹ میں تیار ہوجاتا ہے۔ تربوز کا پاؤڈر بھارت میں آنلائن پاکستانی روپوں کے حساب سے ایک ہزار سے بارہ سو روپے میں فروخت ہورہا ہے۔ جبکہ یورپ میں سو گرام کا پیکٹ پانچ یورو کا بک رہا ہے۔ مطلب لگ بھگ دس ہزار روپے کلو۔
خوش قسمتی سے وطن عزیز میں جب تربوز کی بہتات ہوتی ہے، اس وقت گرمی بھی عروج پر ہوتی ہے۔ سو بنا کسی توانائی کے محض دھوپ میں لکڑی اور موم جامہ کی مدد سے چھوٹا سا کمرہ بنا کر اوراس میں چھوٹا سا پنکھا لگا تربوز، خربوزہ یا کوئی بھی دوسرا پھل خشک کیا جاسکتا ہے۔ سترہ کلو تربوز کی گری سے ایک کلو پاؤڈر بن جائے گا۔ زیادہ سے زیادہ لاگت تین سو روپے پڑے گی۔
اسی طرح خربوزہ بھی۔ یہ تو چار کلو سے ایک کلو تیار ہوجائے گا۔ میٹھا خوش ذائقہ اور خوشبودار خشک خربوزہ ذائقہ کسی بھی لذیذ مٹھائی سے کم نہیں اور غذائیت اور افادیت میں اس مٹھائی اور ٹافیوں سے کہیں بہتر۔۔
عزیز ہم وطنو! گوروں سے نہیں تو افغانیوں سے ہی کچھ سیکھ لو!