Kahan Hai Aap Ka Medal?
کہاں ہے آپ کا میڈل؟
اسے بھی پڑھائی پر توجہ دینے کے لیے کہا جاتا ہو گا اور زیادہ وقت کھیل کو دینے پر ڈانٹ پڑتی ہو گی۔ اسے بھی خوف ہو گا کہ اگر کامیابی نہیں ملی تو نظام حیات کیسے چلے گا؟ اسے بھی وسائل کی قلت کا سامنا رہا ہو گا۔ جس کھیل کا اس کو شوق تھا اس کے پورے علاقے میں اس کھیل کے لیے کوئی میدان بھی نہیں تھا۔ مناسب راہنمائی کی عدم دستیابی کا گلہ اسے بھی ہو گا۔
مہربانوں نے اس کا بھی مذاق اڑایا ہو گا کہ یہ منہ اور ایسے سپنے، مگر وہ اپنی دھن میں لگا رہا۔ اجتماعی رویوں کے سپیڈ بریکروں سے بھرے اسی معاشرے میں۔ حسد، اور مزاحمت کے اسی ماحول میں اس نے کان لپیٹ لیے ہوں گے، آنکھوں کو سپنوں سے منور کیے ساری سوچیں اور توانائیاں مجتمع کر کے ہدف کے تعاقب میں دن رات ایک کر دیا ہو گا۔
وہ سارے بہانے جو میں اور آپ گھڑتے انہیں اس نے گولہ بنا کر بہت پہلے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا تھا۔ پھر ایک سال نہیں، دو سال نہیں۔ ایک دہائی سے زائد عرصہ تک مسلسل محنت کا یہ عمل جاری رہا اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے، آج وہ پہلا جنوبی ایشیائی ہے جس نے نوے میٹر سے زیادہ فاصلے تک نیزہ پھینک کر اپنے وطن کے لیے سونے کا تمغہ حاصل کیا ہے۔ ہمیں ارشد ندیم پر، اس کی مسلسل محنت اور اس کی مستقل مزاجی پر فخر ہے۔
مگر ساتھ ہی ایک سوال ہے کہ بطور پاکستانی ارشد ندیم میں اور مجھ میں یا اس میں اور آپ میں کیا فرق ہے؟ ہو سکتا ہے کہ ہمیں اپنے میدان میں اس سے کم مسائل کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ اس سے زیادہ وسائل بہم ہوئے ہوں۔ تو پھر، کیا ہم نے یا آپ نے اپنے اپنے میدان میں کوئی میڈل لیا ہے یا اس کی دوڑ میں شامل ہیں، اگر ہیں تو شاباش۔ اگر نہیں۔ تو کیوں؟ کوئی بہانہ نہیں چاہیے۔ بس اٹھیں اور اپنے ماں باپ کے لیے اپنے سوہنے دیس کے لیے اپنی اپنی فیلڈ میں میڈل لے کر آئیں، چلیں شاباش۔